غیبت، ایک روحانی بیماری ( حصہ دوم)
تحریر : حسین اختررضوی
معاشرے کی سب سے بڑی برائی عیب جوئی اور غیبت ہے غیبت کاسب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ غیبت کرنے والے کی معنوی شخصیت ختم ہوجاتی ہے.جو لوگ غیبت کے عادی ہو گئے ہیں انہوں نے اپنی فکری صلاحیت اور نظم اخلاقی کو کھو دیا ہے ، یہ لوگ عیوب اور رازوں کو ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں کو زخمی کرتے ہیں غیبت انسانی فضیلت کو ویران کر دیتی ہے مختصر یہ کہ یہ بری عادت روشن افکار کو بدل کر اس کے ذہن کے سامنے فہم و تعقل کے دریچوں کو بند کر دیتی ہے .
اگر آپ معاشرے پرگہری نظر ڈالیں توواضح ہوجاتا ہے کہ غیبت نے پیکر اجتماع پر کاری ضرب لگا کر اس کو مجروح کر دیا ہے اور معاشرے کے اندر کینہ و دشمنی کو بڑھا دیا ہے جس قوم کے اندر یہ صفت راسخ ہو گئی ہے اس نے قوم کی عظمت کو خاک میں ملا دیا اور اس کی شہرت کو داغدار بنا کر اس ملت کے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ہے جو کبھی بھرنے والا نہیں ہے .
ہمیں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیئے کہ آج غیبت کا بازار ہر جگہ گرم ہے.اور اس نے ہر طبقہ کے اندر رخنہ پیدا کر دیا ہے جس طرح گیتی کے حادثات باہم مرتبط ہوتے ہیں اسی طرح اگر لوگوں میں روحانی انحراف پیدا ہو جائے تو وہ ہر طبقہ میں سرایت کرجاتاہے غیبت کی وسعت دامانی کی وجہ سے لوگوں کے افق افکار پرمایوسی و بد بینی کی روح سایہ فگن ہوچکی ہے ۔ آپسی اعتماد ختم ہوگیا ہے اس لئے جب تک اچھی صفات اور روح یگانگت کا سایہ معاشرے پر نہ پڑے خلوص کا تحقق ناممکن ہے ، جس معاشرے میں پسندیدہ اخلاق کا وجود نہ ہو وہ حیات کی نعمتوں سے محروم رہتا ہے.
یہ ایک روحانی بیماری ہے جس کا براہ راست تعلق انسان کی روح سے ہے اور یہ ایک خطرناک روحانی بحران کی علامت و نشانی ہے جس کے سوتوں کو دل وجان کے گوشوں میں تلاش کرنا چاہئے ، علمائے اخلاق نے اس کی پیدائش کے متعدد اسباب ذکر فرمائے ہیں ۔ جن میں اہم ترین اسباب حسد و غصہ ، خود خواہی اوربد گمانی ہیں، انسان سے جتنے بھی کام سرزد ہوتے ہیں وہ ان مختلف حالات کی پیدا وار ہوتے ہیں ،جن کا وجود انسان کے باطن میں ہوتا ہے۔
خدایا ہمیں اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھ ۔ آمین