دوسروں کے عیب تلاش نہ کرو ( حصہ اول)
تحریر : حسین اختررضوی
خداوندعالم سورہ حجرات کی گیارہویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے: ایمان والو خبردار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے اور دیکھو آپس میں ایک دوسرے کی عیب جوئی بھی نہ کرنا اور نہ بُرے بُرے القاب سے یاد کرنا"ایت کریمہ کے حکم کے مطابق ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ جب بھی اپنے دینی بھائی کی خطاؤں اور کوتاہیوں کا مشاہدہ کرے تو خاموشی کے ساتھ اس سے بیان کرے اور نصیحت کرے تاکہ وہ اپنی غلطیوں پر نادم ہوکر دوبارہ انہیں انجام دینے سے پرہیز کرے مگر اس نصیحت آمیز اقدام میں جس چیز کا سب سے زيادہ خیال رکھنا چاہیئے وہ لوگوں کی عزت و آبرو کی حفاظت ہے۔ اخلاقی برائیوں میں سے ایک بدترین برائی دوسروں کے عیوب تلاش کرنا ہے جو غرور و تکبر ، منصب طلبی اور حسد کی علامت ہے دوسروں کے عیوب تلاش کرنے والے افراد وہ ہیں جو اپنی کوتاہیوں اور عیوب سے بے خبر رہ کر دوسروں کے عیوب تلاش کرکے انہیں لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جب کہ یہ کام بہت ہی بڑا گناہ شمار ہوتا ہے اور خداوندعالم ایسے شخص کو درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔
اگرانسان اپنے عیوب کی جانب توجہ دے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرے تو دوسروں کے عیوب و نقائص کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوگا اور نہ ہی اس گناہ کا مرتکب ہوگا کیونکہ ایسی حالت میں وہ نہ صرف دوسروں کی عیب جوئی کے بارے میں رغبت پیدا نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے عیوب کی اصلاح کی فکر ہوگی اور اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں بچے گا کہ وہ دوسروں کے عیوب تلاش کرے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے عیوب اسے مومنین کے عیوب تلاش کرنے سے روک دیں۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اہل ایمان کے صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مومن صرف اپنے عیوب کی فکر میں رہتا ہے اور دوسروں کے عیوب کی تلاش و جستجو سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص اپنے عیوب سے باخبر رہتا ہے وہ دوسروں کے عیوب کو بیان نہیں کرتا ہے
اپنے عیوب اور غلطیوں کی جانب بھرپور توجہ دینے اور دوسروں کے عیوب کی طرف سے بے توجہی میں براہ راست رابطہ پایا جاتا ہے ۔امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس رابطے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لوگوں کے عیوب تلاش نہ کرو کیونکہ تمہارے اندر بھی بہت سے عیب پائے جاتے ہیں اور اگر تم نے اس کی جانب توجہ دی تو کبھی بھی تم دوسروں کے عیوب بیان کرنے کی کوشش نہیں کروگے ۔
دوسروں کا عیب تلاش کرنے والوں کی مثال اس مکھی کی ہے جو گندگیوں پر بیٹھتی ہے ، عیب تلاش کرنے والے صرف منفی پہلوؤں پر ہی انگلیاں اٹھاتے ہیں اور لوگوں کے مثبت پہلوؤں پر نظر نہیں کرتے، چنانچہ فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں : پست ترین افراد مکھیوں کی طرح نجاستوں اور گندگیوں پر بیٹھتے ہیں اور برے کام اور لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور ان کی اچھائیوں کو بالکل اس طرح نظر انداز کردیتے ہیں جس طرح مکھیاں بدن کے فاسد و زخمی اعضاء پر جاکر بیٹھتی ہیں مگر بدن کے صحیح و سالم اعضاء کو چھوڑ دیتی ہیں ۔ اسی لئے امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے چاہنے والوں کو عیوب تلاش کرنے والوں کے ساتھ نشست و برخاست کرنے سے سختی سے منع کیا ہے اور اس کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: کوئی شخص بھی عیوب تلاش کرنے والوں کے شر سے محفوظ نہیں ہے آپ مزيد فرماتے ہیں: اگرکوئی شخص دوسروں کے عیوب تلاش کرنے کی فکر میں رہتا ہے تو خداوندعالم اس کے پوشیدہ عیوب کو ظاہر و آشکار کردیتا ہے ۔