ایمان کے وسیلے سے دوستی
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
خداوند بزرگ و برتر جب لوگوں کی خطأوں کو معاف فرماتا ہے تو انہیں بالکل ختم کردیتا ہے اور انسان کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے اندر ان خصوصیات کو پیدا کرے۔بعض اوقات خدا کی مرضی سے فرشتے بھی بندوں کے گناہوں سے آگاہ نہیں ہوتے جیسا کہ امیر المومنین اس دعا میں جو انہوں نے کمیل ابن زیادنخعی کو تعلیم فرمائی کچھ ایسے گناہوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن کو خدا نے اپنی رحمت کے ذریعے گناہوں کو لکھنے والے فرشتوں سے بھی مخفی رکھا ہے ۔ "وَ كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيَّ مِنْ وَرَائِهِمْ وَ الشَّاهِدَ لِمَا خَفِيَ عَنْهُمْ وَ بِرَحْمَتِكَ أَخْفَيْتَهُ وَ بِفَضْلِكَ سَتَرْتَهُ " اور (اے خدا) ان فرشتوں سے بڑھ کر تومیرے ایسے اعمال کا شاہد اور گواہ تھا جو تو نے اپنی رحمت اور فضل کے ذریعے (ان فرشتوں ) سے مخفی اور پوشیدہ رکھے تھے۔
کسی غلطی کے سرزد ہونے کے وقت تنبیہ کرنا اور بعد میں برا بھلا کہنے کے لئے ان غلطیوں کو یاد رکھنا حقیقت میں مومن کے حق کو پامال کرنا ہے اور نہایت گھٹیا اور پست عادات و خصائل میں سے ہے۔
انسان ایمانی بھائی چارے کو دوسروں کے نقائص اور کمزوریوں کو جاننے کا ذریعہ نہ بنائے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :" أَدْنَى مَا يَخْرُجُ بِهِ الرَّجُلُ مِنَ الْإِيمَان َنْ يُوَاخِيَ الرَّجُلَ عَلَى دِينِهِ فَيُحْصِيَ عَلَيْهِ عَثَرَاتِهِ وَ زَلَّاتِهِ لِيُعَیِّرَهُ بِهَا يَوْماً مَا " سب سے چھوٹی چیز جو انسان کو ایمان سے خارج کرتی ہے یہ ہے کہ دوسرے مومن سے ایمان کے وسیلے سے دوستی کرے اور اس کے عیبوں کو تلاش کرے تا کہ (ان عیبوں کی بناپر ) اسے برا بھلا کہہ سکے۔
دائرہ ایمان سے نکلنے کی وجہ سے انسان خدا سے دور ہوجاتا ہے یہاں تک کہ انسان خدا سے دوری کی آخری حد تک پہنچ جاتا ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں " أَبْعَدُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ يُوَاخِيَ الرَّجُلَ وَ هُوَ يَحْفَظُ عَلَيْهِ زَلَّاتِهِ لِيُعَيِّرَهُ بِهَا يَوْماً مَا " خدا سے بندے کی انتہائی دوری کی حالت یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان سے دینی معیاروں پر دوستی کرے اور اس کی غلطیوں کو شمار کرتا رہے تاکہ کسی دن (ان غلطیوں کی بنا پر) اس کی سر زنش کرسکے۔
خدا سے دوری کا نتیجہ کفر ہے البتہ یہ کفر، کفر عملی ہے جو کبھی کفر اعتقادی کا سبب بنتا ہے اور کیونکہ یہ غلط عادت خدا سے دوری کی بدترین حالت ہے اس لئے کفر سے نزدیک ترین حالت ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : " أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ إِلَى الْكُفْرِ أَنْ يُؤَاخِيَ الرَّجُلَ عَلَى الدِّينِ فَيُحْصِيَ عَلَيْهِ عَثَرَاتِهِ وَ زَلَّاتِهِ لِيُعَنِّفَهُ بِهَا يَوْماً مَا "کفر سے نزدیک ترین حالت یہ ہے کہ انسان دینی بنیادوں پر کسی سے دوستی کرے اور اس کی کمزوریوں اور نقائص کو ڈھونڈے تا کہ کسی دن ان (نقائص) کی بنا پر اس کو برا بھلا کہہ سکے اس بارے میں نقل ہونے والی روایات اس عمل اور اس عمل کو انجام دینے والے شخص کی پلیدی اور ناپاکی کو بیان کرتی ہیں اور ایسے انسانوں کو یہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ ظاہری طور پر وہ انسانوں جیسے ہیں لیکن شیطان نے ان کے وجود میں اپنا گھر بنالیا ہے