Apr ۲۲, ۲۰۱۷ ۲۳:۰۱ Asia/Tehran
  • اسیر بغداد کے فضائل و کمالات کی کچھ جھلکیاں

تحریر : حسین اختر رضوی

فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سات صفر المظفر کو مدینہ کے نزدیک ابواء نامی دیہات میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ ماجد امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں اور آپ کی والدۂ ماجدہ اپنے زمانے کی با عظمت خاتون جناب حمیدہ تھیں۔ آپ نے دنیا کے مختلف حکاّم جور کے زمانے میں زندگی بسر کی اور آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہایت مصائب اور شدید مشکلات اور خفقان کا دور تھا ہرآنے والے بادشاہ کی امام علیہ السلام پرسخت نظر تھی لیکن یہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دور میں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم و ہدایت عطا فرماتے رہے، اتنے نامناسب حالات میں آپ نے اس یونیورسٹی کی جو آپ کے پدر بزرگوار کی قائم کردہ تھی پاسداری اور حفاظت فرمائی آپ کا مقصد امت کی ہدایت اور نشرعلوم آل محمد تھا جس کی آپ نے قدم قدم پر ترویج کی اور حکومت وقت تو بہرحال امامت کی محتاج ہے۔

چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ حاکم زمانہ مہدی نے  مدینے کا سفر کیا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے شراب کے حرام ہونے کے مسئلے پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص میں خیال کررہا تھا کہ معاذاللہ اس طرح امام کی رسوائی کی جائے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ وارث باب مدینۃ العلم ہیں چنانچہ وہ امام علیہ السلام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کی قرآن سے دلیل دیجیئے امام علیہ السلام نے فرمایا خداوندعالم سورۂ اعراف میں فرماتا ہے اے حبیب !کہہ دیجیے کہ میرے خدا نے کارِ بد چاہے ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور ناحق اثم و ستم کو حرام قرار دیا ہے اور اس آیت میں اثم سے مراد شراب ہے۔ امام علیہ السلام یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں خداوند عالم سورۂ بقرہ میں بھی فرماتا ہے اے میرے حبیب لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجیے کہ یہ دونوں بہت عظیم گناہ ہیں اسی وجہ سے قرآن کریم  میں شراب کو صریحاً حرام قرار دیا گيا ہے۔ مہدی، امام علیہ السلام کے اس عالمانہ جواب سے بہت متآثر ہوا اور بے اختیار کہنے لگا ایسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئی نہیں دے سکتا۔ یہی سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام علیہ السلام کی حکومت تھی اگر چہ لوگوں کے جسموں پر حاکم حکمراں تھے ۔ہارون رشید کے حالات میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی قبر پر کھڑ ے ہو کر کہتا ہے: اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے میرے چچا کے بیٹے آپ پر سلام ، وہ یہ چاہتا تھا کہ میرے اس عمل سے لوگ یہ پہچان لیں کہ خلیفہ، سرور کائنات کا چچازاد بھائی ہے ۔اسی ہنگام فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام قبر پیغمبر کے پاس تشریف لائے اور جب اس کو اس طرح خطاب کرتے ہوئے سنا توفرمایا: اے اﷲ کے رسول! آپ پرسلام، اے پدر بزرگوار آپ پرسلام، ہارون رشید امام علیہ السلام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا اور فوراً امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے کہتا ہے،آپ فرزند رسول ہونے کادعوی کیسے کرسکتے ہیں؟ جب کہ آپ علی مرتضیٰ کے فرزند ہیں ۔امام علیہ السلام نے فرمایا تونے قرآن کریم میں سورۂ انعام کی وہ آیت نہیں پڑھی جس میں خداوندعالم فرماتا ہے: قبیلۂ ابراہیم سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، اور الیاس یہ سب کے سب ہمارے نیک اور صالح بندے تھے ہم نے ان کی ہدایت کی۔ اس آیت میں اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گزشتہ انبیاء کا فرزند قرار دیا ہے حالانکہ عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے جب کہ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی طرف سے گذشتہ پیغمبروں کی طرف نسبت دی ہے اس آیۂ کریمہ کی روسے بیٹی کا بیٹا فرزند شمار ہوتا ہے ۔ اس دلیل کے تحت میں اپنی ماں فاطمہ کے ذریعے سے فرزند نبی ہوں ۔اس کے بعد امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے ہارون! یہ بتا کہ اگر اسی وقت پیغمبر دنیا میں آجائیں اور اپنے لئے تیری بیٹی کا سوال فرمائیں تو تو اپنی بیٹی پیغمبرکی زوجیت میں دے گا یا نہیں ؟ ہارون برجستہ جواب دیتا ہے نہ صرف یہ کہ میں اپنی بیٹی کو پیغمبر کی زوجیت میں دوں گا بلکہ اس کارنامے پر تمام عرب و عجم پر فخر و مباہات بھی کروں گا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کرے گا لیکن پیغمبر ہماری بیٹی کے بارے میں یہ سوال نہیں کر سکتے اس لئے کہ ہماری بیٹیاں پیغمبر کی بیٹیاں ہیں اور باپ پر بیٹی حرام ہے۔ امام علیہ السلام کے اس استدلال سے حاکم وقت ہارون رشید نہایت پشیمان ہوا لیکن اس عظیم تاجدار امامت کو ہارون الرشید نے زہر دے کر شہید کردیا اور آج بھی آپ کا روضہ اطہر کاظمین میں مرجع خلائق بنا ہوا ہے ۔

فرزند رسول امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے علم امامت کی بنیاد پر بڑ ے بڑ ے مغرور اور متکبر بادشاہوں سے اپنا علمی سکہ منوالیا امام علیہ السلام قدم قدم پرلوگوں کی ہدایت کے اسباب فراہم کرتے رہے ۔چنانچہ جب ہارون رشیدنے علی بن یقطین کو اپنا وزیر بنانا چاہا اور علی بن یقطین نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے مشورہ کیا تو آپ نے اجازت دے دی امام کا ہدف یہ تھا کہ اس طریقے سے شیعوں کے جان و مال اور حقوق محفوظ رہیں گے، امام علیہ السلام نے علی بن یقطین سے فرمایا تم ہمارے شیعوں کی جان و مال کو ہارون کے شر سے محفوظ رکھنا ہم تمہیں تین چیزوں کی ضمانت دیتے ہیں کہ اگرتم نے اس عہد کو پورا کیا تو ہم ضامن ہیں کہ تم ہرگز تلوار سے قتل نہیں کئے جاؤگے، ہرگزمفلس نہیں ہوگے اور تمہیں کبھی بھی قید نہیں کیا جائے گا۔ علی بن یقطین امام علیہ السلام کے حکم کے ہمیشہ پابند رہے اور امام علیہ السلام کے شیعوں کو حکومت کے شر سے محفوظ رکھا اورامام علیہ السلام کاوعدہ بھی پورا ہوا۔نہ ہارون، پسر یقطین کوقتل کرسکا۔ نہ وہ تنگدست ہوا نہ ہی قید ہوا حالانکہ لوگوں نے بہت چاہاکہ فرزند یقطین کو قتل کرا دیا جائے لیکن ضمانتِ امامت، علی بن یقطین کے سر پرسایہ فگن تھی ۔

 چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ہارون رشید نے علی بن یقطین کو لباس فاخرہ دیا علی بن یقطین نے اس لباس کو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا مولا یہ آپ کی شایانِ شان ہے ۔امام علیہ السلام نے اس لباس کو واپس کر دیا اور فرمایا: اے علی ابن یقطین اس لباس کو محفوظ رکھو یہ برے وقت میں تمہارے کام آئے گا۔ ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکایت کی کہ علی ابن یقطین امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی امامت کا معتقد ہے یہ ان کو خمس کی رقم روانہ کرتا ہے یہاں تک کہ جو لباس فاخرہ آپ نے علی ابن یقطین کو عنایت کیا تھا وہ بھی اس نے امام کاظم کو دے دیا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ سخت غضبناک ہوا اور علی ابن یقطین کے قتل پر آمادہ ہوگیا۔ علی ابن یقطین کو فورا طلب کیا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو میں نے تمہیں عطا کیا تھا ؟علی ابن یقطین نے غلام کو بھیج کر ہارون کے سامنے لباس پیش کر دیا ہارون بہت زیادہ شرمندہ ہوا۔ یہ ہے تدبیر امامت اور علم امامت۔ لیکن اس عظیم تاجدار امامت کو ہارون الرشید نے زہر دے کر شہید کردیا اور آج بھی آپ کا روضہ اطہر کاظمین میں مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔

ٹیگس