غموں اور پریشانیوں سے نجات کی راہ (حصہ اول )
ترتیب و تلخیص: حسین اختر رضوی
دنیا میں ہر امیر غریب، نیک و بد کو قانون قدرت کے تحت دکھوں، غموں اور پریشانیوں سے کسی نہ کسی شکل میں ضرور واسطہ پڑتا ہے لیکن وہ انسان خوش قسمت ہے جو اس غم، دکھ اور پریشانی کو صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کرکے خدا کی خوشنودی حاصل کرلیتا ہے۔ یہ دنیا مصیبتوں، پریشانیوں اور غموں کا گھر ہے، بعض لوگ اولاد کی نافرمانی کی وجہ سے پریشان ہیں تو بعض خواتین اپنے خاوند کی بے راہ روی کے متعلق غمگین رہتی ہیں، کچھ لوگ مال، اسباب کے ختم ہوجانے پر غم میں ڈوبے رہتے ہیں تو بعض لوگوں کو اولاد نہ ہونے کا غم ستائے رہتا ہے شاید اسی لئے خداوندعالم نے سورہ بلد کی چوتھی آیت میں فرمایا ہے: یقیناً ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے۔ غم، دکھ اور پریشانی کا آجانا کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان سے تو کائنات کے افضل ترین انسانوں یعنی انبیائے کرام بھی روبرو ہوئے ہیں ۔ کائنات کے سردار انبیاء کو بھی ایک غم تھا کہ جس کا تذکر سورہ کہف کی چھٹی آیت میں ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے : تو کیا آپ شدّتِ افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرہ میں ڈال دیں گے اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے ۔بےشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس قدر اپنی امت کا خیال ہے کہ میری پوری امت جنت میں چلی جائے مگر آج ہمیں دنیا کی فکر ہے کسی طرح ہماری دنیا اچھی ہوجائے، آخرت کی کوئی فکر نہیں، قبر کی کوئی فکر نہیں جہاں ہمیشہ رہنا ہے روز محشر کی کوئی فکر نہیں جس کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ جہنم سے بچنے کی کوئی فکر نہیں جس کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:کہ اس آگ سے بچو خواہ ایک کھجور کا ٹکڑا ہی دے کر کیوں نہ ہو۔
آج ہمارے کتنے دینی بھائی اور بہنیں بے نمازی مر رہے ہیں ہمیں کوئی فکر نہیں ، ہمارا پڑوسی شرک و بدعات میں مبتلا ہے ہمیں کوئی فکر نہیں۔ ہمارے سامنے فحاشی اور عریانی پھیل رہی ہے ہمیں کوئی فکر نہیں۔ بس ہم اپنے خیال میں مست و مگن ہیں۔ ہم نے اپنے بھائیوں بہنوں کو اچھی باتوں کی جانب متوجہ کرانا چھوڑ دیا ہے اور صرف اور صرف اپنے فائدے اور نقصان میں پڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان ہر منزل اور ہر مرحلے پر پریشان نظر آتا ہے اور اپنے ظاہری سکون و آسائش کے لئے گناہوں کی انجام دہی پر اتر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج شیطانی قوتیں ان پر مسلط ہوگئ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کس طرح سے ان دکھوں، دردوں اور پریشانیوں سے نجات پیدا کریں؟
اس سلسلے میں سب سے اہم چيز یہ ہے کہ مسلمان اپنے عقائد کی اصلاح کرے کیونکہ بے شمار دکھوں، غموں اور پریشانوں کی بنیادی وجہ عقیدے کی خرابی ہے، کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جو عقیدے کی نعمت سے محرومی کی بناء پر ہمارے لئے مصیبت بنے ہوئے ہیں اور اکثر لوگ اس جانب سے بے توجہ ہیں، صحیح عقیدہ دین اسلام کی بنیاد ہے اور ملت اسلامیہ کی اساس اسی پر قائم ہے اور انسان کے تمام اقوال و افعال اسی وقت صحیح اور بارگاہ الہی میں قبول ہوں گے جب اس کا عقیدہ صحیح اور درست ہوگا۔ سورہ نحل کی چھتیسویں آیت میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے : اور یقیناً ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو پھر ان میں بعض کو خدا نے ہدایت دے دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی تو اب تم لوگ روئے زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ تکذیب کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔
اگر انسان چاہتا ہے کہ وہ غم و الم اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرے تو اسے چاہیئے کہ تقوائے الہی اختیار کرے اور جس شخص کو تقوے کی عظیم نعمت حاصل ہوجائے گی وہ غموں اور پریشانیوں سے بڑی آسانی سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے اور خدا اس کے لئے اتنی آسانیاں اور کشادگی پیدا کردےگا کہ وہ اندازہ بھی نہیں کر سکے گا۔
سورہ اعراف کی چھیانویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے: اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کر لیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔اسی طرح سورہ طلاق کی دوسری اور تیسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: جو خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کر دی ہے۔
لہذا انسان جب کسی مصیبت و پریشانی اور غم میں مبتلا ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ کثرت کے ساتھ استغفار و توبہ کرے،یعنی فورا اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے پرور دگارعالم سے مغفرت طلب کرے اور صدق دل سے توبہ کرکےگناہوں کو چھوڑنے کا عہد کرے کیونکہ انسان پر پڑنے والے اکثر مصائب و آلام اس کے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔جس کی قرآن کریم نے بھی تائید کی ہے سورہ شوری کی تیسویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے : تم تک جو بھی مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور وہ بہت سی باتوں کو معاف بھی کر دیتا ہے۔