غموں اور پریشانیوں سے نجات کی راہ (حصہ دوم )
ترتیب و تلخیص: حسین اختر رضوی
غموں اور پریشانیوں کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ یا بہترین علاج جہاد فی سبیل اللہ ہے، آج جس جہاد کو چھوڑ کر پوری امت غموں اور پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے ان غموں، دکھوں اور مصیبتوں کا بہترین علاج جہاد ہے ۔ پریشانیوں کو ختم کرنے کا ایک اور آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالی کی عطا کردہ ظاہری و باطنی نعمتوں پر غور کرنے اور ان کے بدلے اللہ کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرتا رہے کیونکہ شکر ایسی دولت ہے جو انسان کو مزید نعمتوں کا وارث بناتی ہے۔ جیسا کہ خداوندعالم نے سورہ ابراہیم کی ساتویں آیت میں فرمایا ہے: اگر تم ہمارا شکریہ اد ا کرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کر دیں گے اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو ہمارا عذاب بھی بہت سخت ہے۔
انسان ہر وقت اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے،اتنی بے شمار نعمتیں جیسا کہ سورہ نحل کی اٹھارہویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے: اور تم اللہ کی نعمتوں کو شمار بھی کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے ہو بےشک اللہ بڑا مہربان اور بخشنے والا ہے اگر انسان تھوڑا سا غور کرلے کہ رب کائنات نے اسے کتنی نعمتیں دے رکھی ہیں اور بے شمار نعمتیں تو بن مانگے خدابے حساب دے رہا ہے،تو بہت ساری تکلیفیں، غموں اور پریشانیوں سے چھٹکار مل جائے گا۔ شیخ سعدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں اس نے کسی آدمی کے پاؤں میں بہت خوبصورت اور قیمتی جوتا دیکھا جو اسے بہت پسند آیا، جب اس نے اپنے جوتے کی طرف نظرڈالی تو اسے بہت پرانا لگا یہ ہی سوچتا ہوا کچھ دور گیا تھا کہ اس کی نظر ایک ایسے آدمی پر پڑی جو دونوں ٹانگوں سے محروم تھا، اس نے فورا توبہ کی کہ اللہ اگر میرے پاس اچھا جوتا نہیں تو کیا ہوا دونوں پاؤں تو سلامت ہیں۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: اپنے سے کمتر کی طرف دیکھو اور اپنے سے زیادہ مالدارکی طرف نہ دیکھو تاکہ اللہ کی نعمتیں تمھیں حقیر محسوس نہ ہوں۔ آج اگر ہم اللہ کی ظاہری اور باطنی، دینی اور دنیاوی نعمتوں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ پروردگارعالم نے اسے خیر کثیر عطا کر رکھی ہے اور اسے بہت ساری تکالیف ،غموں اور پریشانیوں سے نجات دے رکھی ہے۔ پریشانیوں دکھوں اور غموں کا بہترین اور بنیادی علاج صبر ہے۔ سورہ بقرہ کی ایک سو ترپنویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر کام میں اس کے لئے بھلائی ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے کہ اگر اسے خوشی ملتی ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ شکر کرنا بھی اس کےلئے بہتر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہےاور یہ صبر کرنا بھی اس کے لئے بہتر ہے یعنی صبر بھی بجائے خود ایک عمل اور باعث اجر ہے۔
اسی طرح سورہ بقرہ کی ایک سو پچپنویں آیت میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے: ہم یقیناً تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال و نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں۔
پیغمبر اسلام ایک مقام پر فرماتے ہیں: مسلمان کو جو بھی تھکان، بیماری، فکر، غم اور تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو پروردگار عالم اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔یقینا خداوندعالم کتنا رحیم و کریم ہے کہ مومن کے لئے دنیا میں غموں اور تکلیفوں کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیا مگر شرط یہ ہےکہ انسان صبر کے دامن سے متمسک رہے۔سورہ توبہ کی اکیاونویں آیت میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ اے رسول، آپ کہہ دیجئے کہ ہم تک وہی حالات آتے ہیں جو خدا نے ہمارے حق میں لکھ دیئے ہیں وہی ہمارا مولا ہے اور صاحبانِ ایمان اسی پر توکّل اور اعتماد رکھتے ہیں۔اسی طرح سورہ حدید کی بائیسویں اور تیئسیوں آیتوں میں آیا ہے :زمین میں کوئی بھی مصیبت وارد ہوتی ہے یا تمہارے نفس پر نازل ہوتی ہے تو نفس کے پیدا ہونے کے پہلے سے وہ کتاب الہی میں مقدر ہو چکی ہے اور یہ خدا کے لئے بہت آسان شے ہے ۔ یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غرور نہ کرو کہ اللہ اکڑنے والے مغرور افراد کو پسند نہیں کرتا ہے۔