توبہ و استغفار، اہمیت و درجات
توبہ گناہوں کو دھونے اور پاک کرنے کا نام ہے، وہ لغزشیں جنہیں ہمارے نامۂ اعمال میں تحریر کر دیا گیا ہے، انہیں دوبارہ مٹانے کا نام ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ بندگان خدا میں سب سے زیادہ محبوب بندے وہ ہیں جو اپنے معبود سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور نافرمانی کا راستہ چھوڑ کر دل و جان سے اسکی جانب پلٹ جاتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم ایک حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں:«إنَّ الذُّنُوبَ لَتَشُوبُ أهلَها لِتَحرِقَتِهِم لایطفَئُها شَیءٌ إلاّ الاستِغفَار؛ شک نہیں کہ گناہ، بندے کو جلنے کے لئے آلودہ (آمادہ) کر دیتے ہیں اور سوائے استغفار کے کوئی چیز بندے کو دوبارہ پاک (آگ سے دور) نہیں کرتی» (مستدرک الوسائل، ج ۵، ص ۳۱۶ و ج ۱۲، ص ۱۱۹.)
توبہ و استغفار کے مراحل کے سلسلہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کی ایک اور حدیث شریف وارد ہوئی ہے:
«قال لِمَن قالَ بِحَضْرَتِهِ أستَغْفِرُ اللهَ: «ثَکَلَتْکَ أُمُّکَ أتَدری ما الاسْتِغفارُ؟ هُوَ دَرَجَةُ العِلِّیینَ وَهُوَ اسْمٌ واقِعٌ عَلَی سِتَّةِ مَعانٍ أوَّلُهَا النَّدَمُ عَلَی ما مَضی وَالثّانِی العَزْمُ عَلَی تَرکِ العَوْدِ عَلَیهِ أبَداً وَالثَّالِثُ أن تُؤَدِّی إلی المَخْلُوقینَ حُقُوقَهُم حَتّی تَلقَی اللهَ لَیسَ عَلَیکَ تَبِعَةٌ وَالرَّابِعُ أن تَعمِدَ إلی کَلِّ فَریضَةٍ عَلَیکَ ضَیعْتَهَا فَتُؤَدِّی حَقَّها وَالخَامِسُ أنْ تَعْمِدَ إلَی اللَّحْمِ الَّذی نَبَتَ عَلَی السُّحتِ فَتُذیبَهُ بِالاحْزانِ حَتّی یلصِقَ الجِلدُ بِالعَظْمِ وَینشَأَ مِنها لَحمٌ جَدیدٌ وَالسَّادِسُ أن تُذیقَ الجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ کَمَا أذِقْتَهُ حَلاوَةَ المَعْصِیةِ فَعِنْدَ ذلکَ تَقُولُ أسْتَغفِرُ اللهِ؛
ایک شخص نے امام علی علیہ السلام کے حضور ’’استغفر اللہ‘‘ کہا۔ آپ نے اُس شخص سے فرمایا: تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے، تو جانتا بھی ہے استغفار کیا ہوتا ہے؟! استغفار اُن افراد کا درجہ و مقام ہے جو جنت میں بلند ترین مرتبہ پر فائز ہوں گے۔ استغفار ایک ایسا لفظ ہے جو چھے معانی اور مراحل کے ساتھ کامل ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ انسان اپنے ماضی پر پشیمان ہو، دوسرا یہ کہ ہمیشہ کے لئے یہ فیصلہ کر لے کہ پھر دوبارہ گناہ کی طرف رخ نہیں کرنا ہے، تیسرے یہ کہ اللہ کے جو حقوق تیری گردن پر ہیں، انہیں ادا کر تاکہ خدا سے ملاقات کے وقت تیرا کوئی گناہ باقی نہ رہ گیا ہو، چوتھے یہ کہ جن فرائض کو تو نے انجام نہیں دیا ہے یا انہیں تباہ کیا ہے، اسے انجام دے، پانچواں یہ کہ غذائے حرام کے سبب جو گوشت تیرے بدن پر چڑھا ہے، اسے اس طرح زائل کر کہ کھال ہڈی سے جا ملے اور پھر دوبارہ نیا گوشت تیرے بدن چڑھے اور چھٹا مرحلہ یہ کہ اپنے بدن کو فرمانبرداری کی سختیوں کا عادی بنا اُسی طرح جیسے اُسے تو نے گناہوں کا ذائقہ چکھایا اور اس کا عادی بنایا ہے۔ جب ان مراحل سے تو گزر گیا تب تجھے ’’استغفر اللہ‘‘ کہنے کا حق ہے» (بحار الانوار، ج ۶، ص ۳۶.)
فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
«کُلَّما عَادَ المُؤمِنُ بِالاستِغْفارِ وَالتَّوبَةِ عَادَ اللهُ عَلَیهِ بِالمَغْفِرَةِ وَإنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحیمٌ یقبَلُ التَّوبَةَ وَیعفُو عَنِ السَّیئاتِ فَإیاکَ أنْ تَقنُطَ المؤمِنینَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ؛ جب کبھی مومن اپنے کسی گناہ سے پلٹتا ہے اور توبہ و استغفار کی راہ اپناتا ہے تو خداوند عالم بھی اسکی جانب پلٹ جاتا ہے اور اسے معاف کر دیتا ہے، کیوں کہ خدا بڑا غفور و رحیم ہے، وہ اپنے بندے کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اور اسکے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اس لئے) خبردار! کبھی بھی مومنین کو رحمتِ الٰہی سے مایوس نہ کرنا» (بحار الانوار، ج ۶، ص ۳۹.)
اسی طرح فرزند رسول امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:
«أحَبُّ العِبادِ إلَی اللهِ الْمُنیبُونَ التَّوَّابُونَ؛ خدا کے نزدیک محبوب ترین بندے وہ ہیں جو خدا کی بارگاہ میں توبہ و انابہ کیا کرتے ہیں» (بحار الانوار، ج ۶، ص ۳۶.)