آس پاس
عزیز سامعین کی خدمت میں پروگرام آس پاس کے ساتھ حاضر ہیں -آج کے اس پروگرام میں بھی ہم گذشتہ ہفتے مشرق وسطی کے علاقے میں رونما ہونے والی اہم ترین تبدیلیوں پر ایک نظر ڈالیں گے - پروگرام کے آخر تک ہمارے ساتھ رہئے گا-
سب سے پہلے فلسطین اور صیہونی حکومت کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور جنگ زدہ اور محاصرہ شدہ علاقےغزہ کی ابترصورتحال کے تعلق سے ہونے والے عالمی ردعمل کے بارے میں عرائض پیش کریں گے اور پھر بحرین اور عراق کے بعض واقعات کا جائزہ لیں گے-
مشرق وسطی میں امن کے عمل میں اقوام متحدہ کے نئے کوآرڈینیٹر نے غزہ کا محاصرہ جاری رہنے کی صورت میں انسانی المیہ رونما ہونے کی بابت خبردار کیا ہے-
نیکلائے ملادینوف نے شہر غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں ، غزہ کا محاصرہ کے ذریعے فلسطینیوں پر دباؤ ڈالے جانے پر اسرائیل کو ہدف تنقید بناتےہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کا مشن ،غزہ میں امدادی کاروائی انجام دینے کی کوششیں جاری رکھنا ہے- ملادینوف نے مزید کہا کہ اس ادارے کا مشن یہ ہے کہ غزہ اور غرب اردن میں ایک ملک کی تشکیل سے متعلق فلسطینیوں کی امنگوں اور اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سے فلسطینیوں میں ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئے سیاسی کوششیں بروئے کار لائے-
اگرچہ صیہونی حکومت اس کوشش میں ہے کہ غزہ کے محاصرے کے مسئلے کو کنارے لگانے کے ذریعے اس علاقے میں اپنی ظالمانہ پالیسیوں کو آسودہ خاطر ہوکرجاری رکھے، لیکن عالمی سطح پر غزہ کے باشندوں کی حمایت میں ہونے والے ردعمل سے اس امر کی غمازی ہوتی ہےکہ اسرائیل اپنے تسلط پسندانہ اہداف میں ناکام ہوچکا ہے-
غزہ کے بارے میں مختلف رپورٹوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی مسلط کردہ تیسری جنگ سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال اور وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی کے باعث اس محاصرہ شدہ اور جنگ زدہ علاقے کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اس کی تعمیرنو کے بارے میں فوری طور پر اقدام کئے جانے کی ضرورت ہے-
صیہونی حکومت نے حالیہ برسوں میں غزہ کا محاصرہ کرنے کے علاوہ اس علاقے کے عوام پر تین جنگیں بھی ملسط کی ہیں - صیہونی حکومت نے دوہزار چودہ میں غزہ کے خلاف تیسری جنگ مسلط کی جو پچاس روزہ تھی اور اس جنگ نے بھی غزہ میں، ماضی کی بائیس روزہ اور آٹھ روزہ دو جنگوں کی طرح وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صیہونی حکومت کے توسط سے غزہ کا محاصرہ جاری رہنا اور اس سلسلے میں غزہ کی تعمیر نو میں مدد کے لئے عالمی برادری کی جانب سے دیئے گئے وعدوں پر عملدرآمد نہ ہونا اس بات کا باعث بنا ہے کہ اس علاقے کی تعمیر نو کا عمل بہت زیادہ سست روی کا شکار ہے-
عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی صیہونی حکومت کی حامی مغربی طاقتوں کے دباؤ میں آکر محض ان رپورٹوں کی سماعت پر ہی اکتفا کیا ہے اور یہ ادارے اسرائیل کی بربریت روکنے کے سلسلے میں کوئی اقدام انجام نہیں دے رہے ہیں-
صیہونی حکومت کے لئے مغربی حکومتوں کی حمایت جاری رہنے سے اس علاقے کی صورتحال دن بدن بدتر ہوئی جارہی ہے - دوہزار سات سے جاری غزہ کے محاصرے کے سبب اس علاقے کے پندرہ لاکھ افراد کو غذائی اشیاء ، صاف پانی ، اور دواؤں تک عدم رسائی کا سامنا ہے جس کے باعث اس علاقے میں انسانی المیہ رونما ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے-
غزہ کا محاصرہ جاری رہنے اور متعدد بار اس علاقے پر حملہ کرنے جیسے اقدامات نے فلسطینی عوام کی زندگی کو خطرات سے دوچار کردیا ہے- اسی سلسلے میں کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و اقتصادی ترقی نے فلسطین کے بارے میں اپنی رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کا محاصرہ جاری رہنے اور اس کے بارہا حملوں کے پیش نظر دوہزار بیس تک ممکن ہے کہ یہ علاقہ ایک ناقابل رہائش علاقے میں تبدیل ہوجائے-
صیہونی حکومت کے تشدد آمیز اقدامات نے عملی طورپرغزہ کے باشندوں کے لئے سخت ترین حالات پیدا کردیئے ہیں اور عالمی حکمرانوں نے بھی بارہا اپنی رپورٹوں کے ذریعے یا اس سلسلے میں موقف اپنا کر اس جنگ زدہ علاقے کی ابتر صورتحال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے-
گویندہ : آل خلیفہ کے حکام نے پے در پے تیرہویں ہفتے بھی، بحرین کے بہت سے علاقوں منجملہ دارالحکومت منامہ کے قریبی علاقے الدراز میں نماز جمعہ قائم ہونے کی اجازت نہیں دی- خبروں سے اس امر کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ آل خلیفہ حکومت نے جمعے کو الدراز کے علاقے میں واقع مسجد امام صادق علیہ السلام میں بحرینی شیعوں کو داخل ہونے سے روک دیا اور انہیں اس مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی - الدراز کے علاقے میں بحرین کے ممتاز شیعہ عالم دین آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی رہائشگاہ ہے- آل خلیفہ حکومت نے ہمیشہ الدراز کے علاقے میں نمازجمعہ قائم ہونے اور اس علاقے میں نمازیوں کو داخل ہونے سے روکا ہے-
اس رپورٹ کے مطابق ہزاروں نمازیوں نے فرادی نماز ادا کرنے کے بعد الدراز کےعلاقے میں مظاہرہ کرکے آل خلیفہ حکومت کے ذریعے نماز جمعہ کے انعقاد کی روک تھام کے اقدام کی مذمت کی اور بحرینی شیعوں کے خلاف آل خلیفہ حکومت کی امتیازی پالیسیاں بند کئے جانے کا مطالبہ کیا -
درایں اثنا آل خلیفہ کے سیکورٹی اہلکاروں نے شیعہ مسلمانوں کے تیسرے امام نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے ایام میں ملک کے مختلف علاقوں میں محرم کی مناسبت سے نصب علم اور بینروں کو اکھاڑ دیا - محرم کی مجالس اورعزاداری کرنے کے جرم میں بحرینی عوام پر آل خلیفہ کے فوجیوں کے حملوں میں شدت سے پتہ چلتا ہے کہ بحرین میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہو رہی ہے-
ماہ محرم کی آمد کے ساتھ ہی آل خلیفہ حکومت اپنے غیر قانونی اقدامات کے ذریعے بحرینی شہریوں کو عزاداری کرنے سے روک رہی ہے اور ان عزاداری پر پابندی عائد کر رہی ہے جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ بحرین میں علماء دین خاص طور پر شیعہ علماء کرام کے خلاف آل خلیفہ کی تشدد آمیز پالیسیوں میں وسعت آرہی ہے- بحرین میں فروری دوہزار گیارہ سے اسلامی بیداری کے تحت، آل خلیفہ حکومت کے خلاف پرامن مظاہرے ہو رہے ہیں- بحرینی عوام اپنے ملک میں سیاسی اصلاحات ، آزادی، عدل و انصاف کے قیام، امتیازی سلوک کے خاتمے اور اپنے ملک میں منتخب حکومت کے برسراقتدار آنے کا مطالبہ کررہے ہیں تاہم آل خلیفہ حکومت ،ان کے مطالبات کا جواب مظاہروں کو کچل کر اور مظاہرین پر تشدد کی شکل میں دیتی ہے-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ بحرینی عوام کی تحریک کے رہنماؤں کو بھی آل خلیفہ حکومت کے تشدد اور سرکوبی کا سامنا ہے - بحرین کی حکومت شیخ عیسی قاسم کی شہریت سلب کرنے کے ساتھ ہی ان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرکے ان پر مقدمہ چلانے کے درپے ہے- بحرین کی جارح حکومت نے جون دوہزار سولہ سےآیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت سلب کرلی ہے-
حالیہ دنوں میں بحرین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ حکومت کو بحرینی عوام کے دینی عقائد سے تشویش لاحق ہے - آل خلیفہ کے توسط سے بحرینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزیاں، صرف عوام کے پرامن مظاہروں کو کچلنے، مخالفین کی شہریت سلب کرنے، سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں معطل کرنے اور علماء اور رہنماؤں کے خلاف مقدمہ چلانے تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ جارح حکومت اپنے ملک کے عوام کے دینی اعتقادات اور آزادی بیان کی مخالف ہے اور بحرین کے مختلف علاقوں میں ماہ محرم کی مجالس اور جلوسوں پر بھی حملے کررہی ہے-
بحرین کے انسانی حقوق کے مرکز کے نائب سربراہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مذہبی آزادیوں کا سلب کیا جانا ، تکفیری افکار کا ہی شاخسانہ ہے- سید یوسف المحافظہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مذہبی اور دینی مظاہر اور شعائر الہی پر حملہ اس ملک کے آئین اور قانونی حقوق کے منافی ہے، عزاداروں پر آل خلیفہ حکومت کے کارندوں کے حملے کی مذمت کی - بحرینی حکومت کے توسط سے اس ملک کے عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ایسے میں انجام پا رہی ہے کہ بحرین کے عوام بدستورآیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے گھر کے سامنے اپنا دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ اس عظیم عالم دین تک آل خلیفہ کے حکمرانوں کے گزند سے محفوط رکھ سکیں۔
الدراز کے عوام کا دھرنا کہ جو گذشتہ چار مہینوں سے شیخ عیسی قاسم کے گھر کے اطراف میں جاری ہے، دینی شعائر کی حفاظت اور آل خلیفہ حکومت کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کی علامت ہے۔
بحرین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے واضح کردیا ہے کہ آل خلیفہ حکومت کے جارحانہ اقدامات نے، کہ جو دین مخالف اور شہری قوانین کے برخلاف ہیں، بحرینی عوام کی استقامت کی راہ میں نہ صرف یہ کہ کوئی خلل پیدا نہیں کیا ہے بلکہ بحرینی حکمرانوں کے آمرانہ چہروں کو پہلے سے زیادہ بے نقاب کردیا ہے اور اس وقت بحرین کے عوام حکومت کے ظالمانہ اقدام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں-
گویندہ: صوبہ نینوا کے شہر موصل کو داعش دہشت گرد گروہ سے آزاد کرانے کی کاروائی کا وقت قریب آنے کے ساتھ ہی عراق کی رضاکار عوامی فورس الحشد الشعبی کے خلاف میڈیا یلغار اپنے عروج پر ہے-
عراق میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر، ترکی اور سعودی عرب کی مداخلتیں سایہ افگن رہی ہیں جس پر عراقی حکام نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے- عراق کی وزارت خارجہ نے عراق کی عوامی رضاکار فورس کے خلاف سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے بیان کو بے اہیمت بتاتے ہوئے اس فورس کو عراقیوں کے لئے قابل افتخار قرار دیا -
عراق کی وزارت خارجہ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ عوامی رضاکار فورس کے خلاف سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کا بیان ، دہشت گردوں کے خلاف عراقی فورسیز کی کامیابی پر سعودی عرب کی ناراضگی کی علامت ہے- اس وزارت کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش کے دہشت گردوں کے خلاف عراق میں حکومت اور عوام کو حاصل ہونے والی کامیابیوں میں عوامی رضاکافورس کا اہم کردار ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جمعرات کو ریاض میں ترکی کے اپنے ہم منصب مولود چاووش اوغلو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ دعوی کیا کہ عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی عراق میں فرقہ واریت پھیلا رہی ہے-
الجبیر نے کہ جن کا ملک وہابی افکار کو پھیلانے کے ذریعے فرقہ واریت کی پالیسی کی ترویج کر رہا ہے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ اگر عوامی رضاکار فورس موصل میں داخل ہوتی ہیں تو ممکن ہے کہ فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوں -
چاووش اوغلو نے بھی کہ جن کے ملک کے فوجی، حکومت عراق اور موصل کے عوام کی خواہش اور درخواست کے بغیر اس شہر میں تعینات ہیں موصل کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس شہر کو آزاد کرانے کی کاروائی میں شریک ہوں تاکہ داعش اور عوامی رضاکار فورس کے درمیان انتخاب میں کشمکش سے دوچار نہ ہوں-
عراق کے داخلی امور میں ترکی اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی آشکارہ مداخلت ، موصل میں داعش سے مقابلے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ مداخلت داعش کے پیدا کردہ بحران کو جاری رکھنے کے لئے اور داعش سے ہم آہنگ ہے -
عراق میں ریاض اور انقرہ کا تخریبی کردار کسی پر پوشیدہ نہیں ہے - عوامی رضاکار فورس کے خلاف سعودی عرب کے حکام کا موقف اور موصل میں اپنی فوج باقی رکھنے پر ترکی کا اصرار، عراق میں دہشت گردی کے خلاف حقیقی جنگ کی راہ میں ٹھوس رکاوٹ بنا ہوا ہے-
سعودی عرب اور ترکی عراق کی عوامی فورس پر فرقہ واریت پر مبنی جھوٹا الزام ایسے میں لگا رہے ہیں کہ عراق کی عوامی رضا کار فورس الحشد الشعبی میں شیعہ ، سنی قبائل اور دیگر اقلیتوں کے افراد شامل ہیں-
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرنے کے لئے عراق کے مختلف طبقوں کے افراد الحشد الشعبی میں شامل ہیں اور اس عوامی فورس میں فرقہ واریت حاکم نہیں ہے جیسا کہ عراق میں جنگ کا میدان شیعہ ، سنی ، کرد ، ایزدی اور دیگر عراقی گروہوں کے اتحاد کا مظہر ہے تاکہ جلد از جلد اپنے ملک سے داعش کی بساط لپیٹ دیں-
الحشد الشعبی عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کی براہ راست نگرانی میں سرگرم عمل ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ عوامی فورس مسلح افواج کی صف میں شامل ہے-
الحشد الشعبی فورس، عراقی معاشرے کے بطن سے وجود میں آئی ہے اور اسی سبب سے اسے عوامی مقبولیت حاصل ہے- یہ عوامی رضاکار فورس ، فوج کے شانہ بشانہ داعش دہشت گردوں سے مقابلے میں فرنٹ لائن پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس فورس کو حکومت اور فوج کی حمایت حاصل ہے اور یہ دہشت گردی سے مقابلے میں حکومت کے لئے ایک مفید اور بھروسہ مند فوج ہے -
عوامی رضاکار فورس مختلف محاذوں پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق کی حکومت اور فوج کے لئے مضبوط تکیہ گاہ ہے -
حیدر العبادی کی حکومت حشد الشعبی پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے داعش دہشت گردوں کے قبضے سے عراق کے مختلف علاقوں کو آزاد کرانے کے لئے، بیرونی ممالک سے فوجی مدد مانگنے سے بے نیاز ہوگئی ہے-
الحشد الشعبی کے تجربات پر بھروسہ کرتے ہوئے داعش کے قبضے سے موصل کو آزاد کرانے کی کاروائی کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے اور کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی طاقت اپنے بے بنیاد دعووں کے ذریعے موصل کی کاروائی میں اس اسٹریٹیجک فورس کی شرکت کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتی-
موصل کو آزاد کرانے کی کاروائی میں عوامی رضاکار فورس کی شرکت کے منفی اثرات کے بارے میں ملکی اور غیر ملکی فریقوں منجملہ ترکی اور سعودی عرب کی جانب سے الزامات کا عائد کیا جانا ، درحقیقت اس عوامی فورس کی توانائیوں اور صلاحیتوں کا صحیح ادراک ہونا ہے اور اسی لئے یہ ممالک حشد الشعبی کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے موصل کی آزادی کی کاروائی میں اپنی غیر قانونی موجودگی کاجواز پیش کرنے میں کوشاں ہیں-
عراق کی حکومت اور عوام نے ہمیشہ ہی ، عراق کے دشمنوں کی سازشوں اور پروپگنڈوں سے باخبر ہونے کے ساتھ ہی ان کے بے بنیاد الزامات اور دباؤ کے مقابلے میں حشد الشعبی کا دفاع کیا ہے-