Nov ۰۱, ۲۰۱۵ ۱۶:۲۵ Asia/Tehran
  • واقعہ کربلا ، امام حسین ( ع ) اور ہمارے شعرا حسینؑ جانم
    واقعہ کربلا ، امام حسین ( ع ) اور ہمارے شعرا حسینؑ جانم

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اسکی حسین ، ابتدا ہے اسماعیل

تحریر ؛ راضیہ سید

واقعہ کربلا ہو ، چھ ماہ کے علی اصغر کا ذکر ہو یا کربلا کی شیر دل خاتون بی بی زنیب سلام اللہ علیہہ کے خطبات کا حوالہ ، بنو ہاشم کی شجاعت کا ذکر ہو یا عزادری شبیر کے مرتبے کا تعین ، مقصد حسین کی وضاحت ہو یا قول معصوم کا بیان ۔دنیا بھر کے شعرا نے اپنی مختلف زبانوں اور اپنے اپنے انداز میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے ، میں نے اپنے اس آرٹیکل میں چند نئے اور پرانے شعرائے کرام کے کلام سے استفادہ کیا ہے اگرچہ کہ مدحت آل محمد کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ

میں سوچتا ہوں کہ حق کس طرح ادا ہو گا ؟
غم حسین زیادہ ہے زندگی کم ہے ۔۔

ایک مشہور روایت کے مطابق یہ بھی ہے کہ دنیا کے تمام درخت قلم بن جائیں اور دریا سیاہی پھر بھی اہل بیت کی شان بیان نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ یہ عزت یا مرتبہ انھیں اللہ تبارک و تعالی نے دیا ہے لہذا ان کی مدحت یا تو وہ خود جانتے ہیں یا خود خدائے بزرگ و برتر ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ اے محمد آپ کے اہل بیت کو ہم نے ایسا پاک قرار دیا جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے وہ ہر طرح کے رجس سے دور ہیں ، آؒل تطہیر ہیں ۔ اب کچھ شعرائے کرام کے کلام پر بھی ایک نظر ہو جائے ۔

علامہ اقبال ایک ایسے شاعر جن کی شاعری جتنی اردو زبان میں مقبول ہے اتنی ہی فارسی زبان میں بھی ہے ۔ حکیم الامت علامہ اقبال درحقیقت کربلا شناس تھے ، ان کے کچھ اشعار مالاحظہ ہوں

صدق خلیل بھی ہے عشق
صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر وحنین بھی ہے عشق
حقیقت ابدی ہے قیام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی


فارسی زباں میں بھی علامہ نے کربلا کی منزلت کو بیاں کیا
سر ابراہیم و اسماعیل بود
یعنی آں جمال را تفصیل بود
آن امام عاشقاں پور بتول
سر و آزادی زبستاں رسول

جناب میر انیس قبلہ مرثیہ نگاری کے بے تاج بادشاہ ہیں ان کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ ہم خود کو حقیقت میں میدان کربلا میں پاتے ہیں ۔
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پر باندھے ہوئے قطار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحط آب تھا

انھوں نے اپنی شاعری کے بارے میں خود شاعرانہ تعلی بھی بیاں کی
عمر گذری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہےشبیر کی مداحی میں


مرزا غالب نے اگرچہ بہت زیادہ واقعہ کربلا پر شاعری نہیں کی تاہم یہ شعر بہت مشہور ہے
بزم ترا شمع و گل خستگی
بو تراب ساز ترا زیر و بم واقعہ کربلا

مولانا محمد علی جوہر کے اس شعر نے شہرہ آفاق حثییت حاصل کی
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


جوش ملیح آبادی کا نام تعارف کا محتاج نہیں انھوں نے ایک ایسا بند کہا کہ جو ہر دور کے آمر اور جابر پر فٹ بیٹھتا ہے
کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلوووں سے مسل سکتی ہے
کربلا خار تو کیا ، آگ پہ بھی چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارےکو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا


اب اگر کچھ انفرادی اشعار دیکھیں تو وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں


شاہ است حسین ، بادشاہ ہست حسین
دین است حسین ، دیں پناہ است حسین
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنا لا الہ است حسین

جن کے سجدوں سے منور ہے جبیں آفتاب
میرے حرفوں کی عبادت ان خدا والوں کے نام
میری شہ رگ کا لہو ، نذر شہیدان وفا
میرے جذبوں کی عقیدت کربلا والوں کے نام
گویا ہر زباں میں فرزند رسول کی تعریف و مدحت جاری ہے اور جاری رہے گی تا وقت کہ امام زمانہ مہدی القائم ال محمد کا ظہو رہو جائے گا انشا اللہ
میں اپنے اس آرٹیکل کا اختتام ایسے کروں گی
شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب
واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب
تاریخ بولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب
اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب
دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا
دنیا کی ہر زباں پہ قبضہ حسین کا

ٹیگس