اربعین, وہ میراث جو ہمیں نہ آسانی سے ملی، ہزاروں عاشقوں کے ہاتھ کٹے، پاؤں قلم ہوئے اور گردنیں تن سے جدا ہوئیں
یہ جو واقعہ بیان ہوا ہے، نہ تو کوئی داستان ہے اور نہ ہی افسانہ؛ بلکہ ایک حقیقت ہے جو عباسی خلیفہ متوکل کے دور حکومت میں پیش آئی۔ اسے چوتھی صدی ہجری کے معروف مؤرخ مسعودی نے اپنی کتاب "مروج الذہب" میں درج کیا ہے۔
"ایک خاتون امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جانے والے زائرین کے ہو رجسٹریشن کے لئے متعلقہ عہدیدار کے پاس جاتی ہے۔ افسر نے اس سے کہا: کیا تم جانتی ہو کہ زیارت پر جانے کی شرط ہاتھ کا کاٹنا ہے؟
عورت نے جواب دیا: جی، میں جانتی ہوں۔
افسر نے اس کا نام لکھا اور کہا: اپنا ہاتھ آگے کرو۔
عورت نے اپنا بایاں ہاتھ حجاب کے نیچے سے نکالا اور افسر کے سامنے پڑے ایک پتھر پر رکھ دیا، گویا کہہ رہی ہو: میں تیار ہوں، میرا ہاتھ زیارتِ حسینؑ پر قربان۔
افسر نے دوبارہ عورت سے کہا: خلیفہ کا حکم ہے کہ زیارت کے خواہش مند کا دائیں ہاتھ کاٹا جائے۔
عورت نے تھوڑی دیر خاموشی اختیار کی، پھر نرمی سے اپنا دایاں ہاتھ حجاب سے باہر نکالا اور کہا: یہ وہ ہاتھ ہے جو آپ نے پچھلے سال کاٹ دیا تھا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب عباسی خلیفہ متوکل (دسواں خلیفہ) اہل بیت علیہم السلام سے شدید نفرت رکھتا تھا، جس کا اظہار وہ اہل بیتؑ کے چاہنے والوں پر ظلم، قتل، اور ان کے مال و املاک کی ضبطی کے ذریعے کرتا تھا۔

متوکل نے 236 ہجری میں امام حسینؑ کی قبر اور روضہ مبارک کو منہدم کروا دیا، زمین کو ہموار کروا کے اس میں کھیتی کروائی اور تمام راستوں پر محافظ بٹھا دیے تاکہ کوئی زائر کربلا نہ پہنچ سکے۔ لیکن اہلِ بیتؑ کے محبّین کو نہ ظلم روک سکا، نہ قتل، نہ ہاتھ کاٹنے کی شرط۔۔

جب متوکل نے اعلان کیا کہ "زیارت حسین بن علیؑ آزاد ہے، بشرطیکہ زائر اپنا دایاں ہاتھ قربان کرے" —تب بھی عاشقانِ حسینؑ لائنوں میں لگ گئے، ہاتھ کٹوانے کو تیار، تاکہ باقی ہاتھ سے سینه پیٹ سکیں، نوحہ پڑھ سکیں، اور مظلوم امام کی زیارت کر سکیں۔
اور کچھ، جیسے وہ عورت، جو پہلے ہی دونوں ہاتھ قربان کر چکی تھیں، شاید اگر ان کے پاس ہزار ہاتھ ہوتے، تو وہ بھی حسینؑ کی زیارت پر قربان کر دیتیں۔
کربلا میں امام حسینؑ کی زیارت کی سنت، اُسی پہلے اربعین سے شیعوں کے درمیان رائج ہو گئی تھی؛

جب حضرت جابر بن عبد الله انصاری، اپنے محبوب کے مزار پر پہنچے؛ اور اُسی اربعین پر – مستند اقوال و دلائل کے مطابق – امام سجادؑ اور حضرت زینبؑ بھی کربلا واپس آئے اور سید الشہداءؑ اور دیگر شہدا کے لیے مجلسِ عزا برپا کی۔ یہ زیارت اُسی وقت سے اہل بیتؑ کے چاہنے والوں میں رائج ہو گئی۔ خود ائمہ معصومینؑ نے بھی اس زیارت کو بہت زیادہ اہمیت دی اور اس کی انجام دہی پر سخت تاکید کی ہے۔
امام حسن عسکریؑ نے زیارتِ اربعین کو مستحب اور مومن کی نشانیوں میں شمار کیا۔ یہ زیارت اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کے نزدیک اتنی زیادہ اہمیت رکھتی تھی کہ:

اموی حکمرانوں کی سختیاں، عباسیوں کی درندگی، امام حسینؑ کے مزار کی بار بار توہین و تخریب، اور زائرین کے ہاتھ، پاؤں یا گردن کاٹنے جیسے مظالم ان سب میں سے کوئی بھی عامل، لوگوں کو زیارتِ اربعین سے روک نہ سکا۔ یہ وہ چراغ تھا جسے دشمنوں نے بار بار بجھانے کی کوشش کی، مگر یہ چراغ ہر بار اور زیادہ روشن ہو کر چمکنے لگا۔اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عظیم اجتماع فرزندِ حسینؑ، منجیِ آخرالزّمان (عج) کے شایانِ شان استقبال کے لیے خود کو آمادہ کر رہا ہے۔