Sep ۲۹, ۲۰۲۰ ۰۷:۰۴ Asia/Tehran

جنرل قاسم سلیمانی دنیا کے ہر حریت پسندوں کے دل میں بستے ہیں۔

انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالم اسلام کی جو مدد کی اسے کوئی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔

کہا جاتا ہے کہ اگر جنرل قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو شام، عراق بلکہ پورے علاقے پر داعش کا سیاہ پرچم لہراتا ہوا نظر آتا۔

یہی وجہ ہے ہر حریت پسند ان کی قربانی کو یاد کرتا ہے اور ان کی تعظیم کو جھک جاتا ہے۔

ان دنوں عراق میں اربعین امام حسین علیہ السلام کے لئے کربلا تک پیدل مارچ کا پروگرام جاری ہے جس میں ہر عمر کے افراد شریک ہیں تاہم اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے یہ پروگرام محدود ہے لیکن عراقیوں نے ہفتوں پہلے ہی پیدل مارچ شروع کر دیا تھا۔

اسی پیدل مارچ میں شام ایک بوڑھے شخص نے جب جنرل قاسم سلیمانی اور جنرل ابو مہدی المہندس کی تصویر ایک جگہ پر دیکھی تو وہ رک گیا اور والہانہ بوسے کرنے لگا۔

اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر ایگنس کیلا مارڈ نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ واقعہ کسی مغربی ملک میں پیش آتا تو اسے ایک جنگی اقدام قرار دے کر سخت نوٹس لیا جاتا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹر نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ جس یہ ثابت ہو سکے کہ جنرل قاسم سلیمانی امریکی فوجی مراکز پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

یاد رہے کہ ایران کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی عراقی حکومت کی دعوت پر 3 جنوری کو عراق پہنچے تھے اور ایئر پورٹ کے باہر امریکی دہشتگردوں نے میزائل حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا تھا۔ امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اس قتل کا حکم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔

شہید قاسم سلیمانی عراق کی باضابطہ دعوت پر بغداد پہونچے تھے اور وہ حکومت عراق کے مہمان تھے۔

 امریکہ کے اس دہشتگردانہ حملے کے جواب میں ایران نے بھی ایک ابتدائی انتقامی کاروائی کرتے ہوئے آٹھ جنوری کوعراق میں امریکی دہشتگردی کے سب سے بڑے اڈے عین الاسد پر درجن بھر میزائل داغ کر امریکہ کی شان و شوکت کو خاک میں ملا دیا تھا۔ ایران کے اس حملے میں امریکہ کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا تاہم امریکہ نے کئی ہفتے کی خاموشی کے بعد آہستہ آہستہ اور بتدریج اپنے سو سے زائد دہشتگردوں کو صرف دماغی چوٹ آنے کا اعتراف کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔

 

ٹیگس