سعودی عرب کی اقتصادی مشکلات آل سعود کی عوام مخالف پالیسیوں کا نتیجہ
Oct ۱۰, ۲۰۱۵ ۱۴:۵۱ Asia/Tehran
خبروں سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ آل سعود کی اقتصادی میدان میں کارکردگی ناکام رہی ہے اور سعودی عرب کے حکمرانوں کی غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے اس ملک کے عوام کے ایک بڑے حصے کو غربت اور بےروزگاری کے مسائل کا سامنا ہے۔
سیاسی، سماجی، قانونی اور اقتصادی میدانوں میں آل سعود کی عوام مخالف پالیسیوں کے جاری رہنے کے اقتصادی شعبے سمیت سعودی عرب کے عوام کی زندگی کے مختلف شعبوں میں خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ایسے حالات میں سعودی عرب کے خراب اقتصادی حالات نے اس ملک کے بادشاہ کو اقتصادی بچت اور کفایت شعاری کی پالیسیوں کا اعلان کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اخبار "رای الیوم" کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ملک کے بجٹ میں بیس فیصد خسارے کی وجہ سے مختلف شعبوں میں اقتصادی بچت اور کفایت شعاری کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔
اس اخبار نے خلیج فارس کے ممالک کے بعض باخبر اقتصادی ذرائع کے حوالے سے سعودی عرب کی اقتصادی کفایت شعاری کی پالیسی کے اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سرکاری دفتری خدمات کی فیسوں اور سروس چارجز میں اضافہ اور ایندھن، بجلی، پانی اور بعض بنیادی اشیائے ضرورت کی سبسڈی میں کمی اس پالیسی کے اہم نکات میں شامل ہے۔
درایں اثنا برطانیہ کے اخبار گارڈین نے اپنی جمعہ کی اشاعت میں اٹھائیس ستمبر کو سعودی عرب کے وزیر خزانہ کے نام شاہ سلمان کے انتہائی خفیہ خط کے مندرجات کو فاش کیا ہے۔ اس خط میں بھی رواں سال کے باقی مہینوں میں سعودی حکومت کے اخراجات کو کم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ تیل قیمت میں شدید کمی نے بھی کہ جس میں سعودی عرب کا کردار ہے، سعودی عرب کی تیل کی آمدنی میں کہ جو اس ملک کی ناخالص قومی آمدنی کا نوے فیصد ہے، پچاس فیصد کمی کر دی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے حالیہ مہنیوں کے دوران امریکہ کی سازشی پالیسیوں کے زیراثر تیل کی قمیت میں کمی کی ہے، لیکن عملی طور پر گزشتہ ہفتوں کے دوران اس نے اپنے اقتصاد اور معیشت پر اس پالیسی کے منفی اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔
تیل کی قیمت میں کمی نے اگرچہ تیل برآمد کرنے والے بعض ممالک کے اقتصاد پر وقتی اثر ڈالا ہے لیکن آخرکار یہ سعودی عرب کا اقتصاد ہے کہ جو صرف تیل کی بنیاد پر کھڑا ہے اور جس نے تیل کی منڈیوں میں سعودی عرب کی مہم جوئیوں کے نئے دور سے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔
یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب سعودی عرب کی اسٹاک مارکیٹ میں بھی گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران تقریبا تیس فیصد کمی واقع ہو ئی ہے اور سعودی عرب کی حکومت بجٹ خسارے اور دیگر مالی مشکلات خاص طور پر یمن اور شام میں جنگ کے بھاری اخراجات سے پیدا ہونے والی مشکلات پر قابو پانے کے لیے اپنے مالی ذخائر سے دسیوں ارب ڈالر نکالنے پر مجبور ہوئی ہے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب حالیہ مہینوں کے دوران شدید اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے یہاں تک کہ اس ملک کے حکام نے گزشتہ مہینوں کے دوران تقریبا ستائیس ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب سعودی عرب کے حکمراں خاندان نے اس ملک کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ شام، عراق، لبنان اور علاقے کے بعض دیگر ملکوں میں مداخلت، فتنہ انگیزی اور دہشت گردوں کی حمایت نیز یمن کے خلاف جنگ کے لیے مختص کیا ہے۔
دوسری جانب سعودی شہزادے اس ملک کے عوام کی دولت لٹانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب سرکاری اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب کو اس سال شدید بجٹ خسارے کا سامنا ہے اور اس ملک کے پچیس فیصد شہری غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت کو بھی بےروزگاری کے مسئلے کا سامنا ہے۔
انسانی ترقی کے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی سالانہ سینکڑوں ارب ڈالر کی آمدنی کے باوجود اس ملک کے تقریبا ستر فیصد عوام ملک کے خراب اقتصادی حالات سے نالاں اور ناراض ہیں اور وہ اپنے ملک میں اقتصادی شعبے سمیت تمام شعبوں میں بنیادی تبدیلیوں پر زور دے رہے ہیں۔