بنگلا دیش میں مطیع الرحمان کی سزائے موت برقرار رکھنے کے خلاف مظاہرے
بنگلا دیش کی سپریم کورٹ کی جانب سے جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت برقرار رکھے جانے کے بعد اس جماعت کے حامیوں نے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
بنگلا دیش سپریم کورٹ کے چار رکنی پینل نے چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کی صدارت میں جماعت اسلامی کے رہنما کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا جس کا پراسیکیوٹر نے خیرمقدم کیا ہے۔ اگر صدر کی جانب سے جماعت اسلامی کے رہنما کو معافی نہیں دی جاتی تو انہیں چند ماہ میں سزائے موت دیئے جانے کا امکان ہے۔ ان پر نسل کشی، تشدد، قتل اور جنسی زیادتی کے سولہ الزامات لگائے گئے تھے۔
بنگلا دیش کی عدالت نے البتہ گزشتہ ایک سال کے دوران جماعت اسلامی کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو اسی قسم کے مختلف الزامات میں سزائے موت سنائی ہے اور ان کی سزا پر عمل درآمد بھی کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے ایک سن رسیدہ رہنما کو عمر قید کی بھی سزا دی گئی اور ان کا جیل میں ہی انتقال ہوا۔ اس بار بنگلا دیش کی سپریم کورٹ نے مطیع الرحمان نظامی کے کیس کا دوبارہ جائزہ لیا اور ان کی سزائے موت کو برقرار رکھا۔
جماعت اسلامی اور اس کے رہنماؤں نے انیس سو اکہتر میں بنگلا دیش کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ بنگلا دیش کی حکومت نے ہمیشہ یہ دعوی کیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے انیس سو اکہتر میں اپنے مقامی جاسوسوں کی مدد سے تیس لاکھ افراد کو قتل کیا اور دو لاکھ سے زیادہ بنگالی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو بھی بنگلا دیش کی حکومت نے دو سال قبل اسی قسم کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی تھی۔
جماعت اسلامی نے چھے جنوری بروز بدھ ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے مطیع الرحمان جامی کو سیاسی محرکات کے تحت موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے ان پر لگائے گئے الزامات کو جھوٹا اور اس سلسلے میں پیش کیے گئے ثبوتوں کو جعلی قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے حامیوں سے جمعرات کے روز ڈھاکہ پہنچنے اور عدلیہ کی ناانصافی اور اس کے سیاسی فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل کی تھی۔
شیخ مجیب الرحمان کہ جو بنگلا دیش کے بانی ہیں، کی بیٹی شیخ حسینہ واجد اس وقت بنگلا دیش کی وزیراعظم ہیں کہ جن کے ہندوستان کے ساتھ مضبوط اور گہرے تعلقات ہیں۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب اسلام آباد کی بنگلا دیش کی موجودہ حکومت کے بارے میں کوئی اچھی نظر نہیں ہے اور اس کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ واجد پاکستان کے حامیوں اور دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ پلوں کو ختم کر رہی ہے اور بنگلا دیش حکومت کا یہ طرزعمل اس ملک میں وسیع پیمانے پر موجودگی کے لیے ہندوستان کو ہری جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔
بنگلا دیش کو پاکستان سے علیحدہ اور آزاد ہوئے پینتالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے کے دوران بنگلا دیش میں ہمیشہ جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی، جھڑپوں اور تشدد کا دور دورہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ انیس سو پچھتر میں بنگلا دیش میں فوجیوں نے خونریز بغاوت کی جس میں اس وقت کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان کو قتل کر دیا گیا۔ مجیب الرحمان کو ایک سوشلسٹ کے طور پر جانا جاتا ہے کہ جو اپنے ملک کے عوام کو تشدد و خونریزی سے پاک اور سیاسی و اقتصادی ترقی کی حامل ایک زندگی دے سکتے تھے لیکن انیس سو پچھتر میں ان کے قتل کے ساتھ ہی یہ آرزو دم توڑ گئی۔
شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد اس وقت بنگلا دیش کی وزیراعظم ہیں اور وہ انصاف پر عمل درآمد کر کے اپنے والد کی آرزوؤں کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انیس سو اکہتر کی جنگ آزادی کی روح کو زندہ کرنا چاہیے اور عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچنا چاہییں اور اقتدار پر غیرقانونی قبضے کو روکنا چاہیے، لیکن شیخ حسینہ واجد کا یہ بیان بنگلا دیش کے سنگین سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل پر پردہ نہیں ڈال سکتا ہے، کیونکہ بنگلا دیش ترقی سے برسوں دور ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران جماعت اسلامی کے حامیوں کے وسیع پیمانے پر احتجاج اور بعض اوقات حزب مخالف کی رہنما اور نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کی جانب سے اس کی حمایت اسی نقطہ نظر کی تائید کرتی ہے کہ بنگلا دیش ایک بار پھر ماضی کو دہرانے جا رہا ہے۔