Jan ۲۲, ۲۰۱۶ ۱۸:۵۳ Asia/Tehran
  • دہشت گردی کے خلاف اتحاد کے لیے جرمنی اور ترکی کے وزرائے دفاع کی درخواست

ترکی کے شہر استنبول کے ایک سیاحتی علاقے میں دس جرمن شہریوں کی چند روز قبل ہلاکت کے بعد ترکی اور جرمنی کے وزرائے دفاع نے دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ترکی کے وزیر دفاع عصمت ییلماز نے ترکی کے شہر آدانا میں اینجر لیک ہوائی اڈے میں اپنی جرمن ہم منصب اورسولہ فون درلاین کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دعوی کیا کہ ترکی داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون میں اپنی تمام تر استعداد و صلاحیت کو استعمال کر رہا ہے۔ عصمت ییلماز کے بقول اینجر لیک ہوائی اڈے کو اپنی اتحادی اور دوست حکومتوں کے لیے کھول دینا اس آپریشن میں ترکی کی نیک نیتی کی علامت ہے۔ ترکی کی وزیر دفاع نے بھی اس بات پر زور دیا کہ داعش کے خلاف جنگ میں انقرہ اور برلن کے درمیان مضبوط تعاون موجود ہے اور اسی بنا پر جرمنی کے جنگی طیارے اس ہوائی اڈے پر تعینات ہیں۔ اگرچہ جرمن وزیر دفاع کے دورہ ترکی کا مقصد سرکاری طور پر دہشت گردی خصوصا داعش کے خلاف جنگ کے لیے تعاون کا مضبوط بنانا بتایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف جنگ میں ترکی کی سچائی اور صداقت کے بارے میں سنجیدہ اور سنگین خدشات موجود ہیں۔ اس سلسلے میں روس نے کہ جس نے اس وقت داعش سمیت شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف وسیع پیمانے پر میزائل اور ہوائی حملوں کے لیے اپنے فوجیوں کی ایک قابل ذکر تعداد شام میں تعینات کی ہے، کئی بار ثبوت و شواہد پیش کر کے ترکی کی جانب سے داعش کی بھرپور مدد و حمایت پر تنقید کی ہے اور اسے شام اور عراق کے بے گناہ عوام کے خلاف داعش کے دہشت گردوں کے انسانیت سوز اقدامات کے جاری رہنے کی حمایت کے مترادف قرار دیا ہے۔

اس سلسلے میں روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخا رووا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترکی شام میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا ذمہ دار ہے۔ انھوں نے ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کے روس مخالف بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہ جس میں انھوں نے ماسکو کو شام کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا تھا، کہا کہ انقرہ دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کے سلسلے میں چشم پوشی سے کام لے کر اور شام میں ان کے داخل ہونے کے حالات فراہم کر کے اس ملک میں موجودہ صورت حال پیدا ہونے کا ذمہ دار ہے۔

درحقیقت دو ہزار گیارہ سے کہ جب سے شام کا بحران شروع ہوا، ترکی نے سعودی عرب اور قطر جیسے عرب ممالک کے ساتھ مل کر اور مغربی ممالک کی مدد اور ہم آہنگی سے شام میں مختلف دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے، انھیں مضبوط بنانے اور پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس دوران داعش کے ساتھ انقرہ کے وسیع تعلقات نے پہلے سے کہیں زیادہ رائے عامہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ اب تک بہت سے ثبوت و شواہد منظرعام پر آ چکے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی نے ہر شعبے اور میدان میں داعش کی بھرپور مدد کی ہے۔ ترک حکام اس سلسلے میں اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات خاص طور پر روس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور ناقابل تردید ثبوتوں کی موجودگی کے باوجود انقرہ اور داعش کے درمیان کسی بھی قسم کے رابطے کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ثبوت اتنے زیادہ اور مضبوط اور ٹھوس ہیں کہ ترکی کے انکار کرنے کے باوجود شاید ہی کسی کو داعش کے ساتھ انقرہ کے تعلقات کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہو۔

اس طرح بہت ہی عجیب لگتا ہے کہ جرمنی کی وزیر دفاع ترکی کا دورہ کر کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انقرہ کے کردار کی تعریف کرتی ہیں۔ درحقیقت ترکی اس وقت دوغلا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں شامل ہو کر اور اس سلسلے میں اینجر لیک اڈے کو فراہم کرنے جیسے اقدامات کر کے خود کو تکفیری دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک حصہ قرار دیتا ہے لیکن دوسری جانب وہ اپنے مفادات کے تحت داعش کو مدد فراہم کرنے اور اس کی افرادی قوت کے لیے راستہ فراہم کرنے والا ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ داعش سے تیل خرید کر اس کو مالی طور پر بھی مضبوط کر رہا ہے۔

ٹیگس