Jan ۲۳, ۲۰۱۶ ۱۷:۳۰ Asia/Tehran
  • ایران کے ساتھ کشیدگی کے پس پردہ سعودی عرب کے مقاصد

ایران کے خلاف سیاسی صف بندیوں کے تناظر میں سعودی عرب کے اقدامات ان دنوں اس کی وزارت خارجہ کی سرگرمیوں میں سرفہرست ہے۔

سعودی عرب کی درخواست پر جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس اور اس اجلاس کا بیانیہ ان اقدامات کا ایک حصہ ہے۔ اس قسم کے اجلاسوں کے انعقاد سے سعودی عرب کا مقصد ایران کے خلاف سفارتی اور سیاسی اقدامات انجام دینا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ علاقے کے ممالک کو ایران پر سیاسی دباؤ ڈالنے کی ترغیب دلانا چاہتا ہے۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملہ کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ اس واقعہ پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قسم کے حملے کی کسی بھی طرح تائید نہین کرتا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ ایران پر علاقے کے ممالک میں مداخلت کرنے کا الزام لگانے کے لیے ایک بہانے میں تبدیل ہو گیا ہے کہ جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس واقعہ سے اس کی اہمیت سے بڑھ کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے اس رویے کی اصلی وجہ، درحقیقت یمن میں ریاض کے فوجی اقدام کے نتائج، ایران اور مغرب کے درمیان ایٹمی مسئلے پر کشیدگی کے بارے میں اس کے اندازوں کے غلط ثابت ہونے اور تیل کی منڈی میں اس کے غیرمنطقی اقدامات کے نتیجہ خیز ثابت نہ ہونے پر اس کی پریشانی ہے۔ لیکن سعودی عرب کو توقع ہے کہ عالم اسلام اور علاقے کے عرب ممالک اس کی پیروی کرتے ہوئے ریاض کے غیرمنطقی رویے اور اس کی ناکامیوں کی قیمت ادا کریں گے۔

ان اقدامات کے آثار کو صیہونی حکومت کے حکام کے حالیہ بیانات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جو اس وقت واضح الفاظ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات اور ان دونوں ملکوں کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں کی بات کرتے ہیں۔

صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعہ کے روز عرب ممالک خصوصا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت کے بارے میں اسرائیل کے قومی سلامتی مرکز کی اسٹریٹجک تاکید کے چند گھنٹے بعد کہا کہ یہ ممالک اسرائیل کو اپنے لیے خطرہ نہیں بلکہ اتحادی سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر جنگ نے بھی اس سے قبل کہا تھا کہ اسرائیل کے سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں کہ جو اس کے ساتھ تعلقات کے قیام کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔

ان بیانات کے تجزیہ و تحلیل کی اہمیت اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی نفی یا اثبات میں نہیں ہے بلکہ ان عوامل کی شناخت میں ہے کہ جو اس قسم کا موقف اپنانے کا باعث بنے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس درمیان ایسا کیا ہوا ہے کہ جس نے صیہونی حکومت کو اس سے فائدہ اٹھانے کا اس قدر مشتاق بنا دیا ہے اور یہ مشترکہ مفادات کون سے ہیں؟ سعودی عرب کی جانب سے علاقے میں کشیدگی پیدا کرنا کئی وجوہات کی بنا پر اسرائیل کے فائدے میں ہے۔

پہلی وجہ علاقے کے ممالک اور عالم اسلام کے درمیان اختلافات میں شدت آنا اسرائیل کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اسرائیل سعودی عرب کی کشیدگی پیدا کرنے کی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر کم ترین خرچ کے ساتھ حتی ایک گولی بھی فائر کیے بغیر اپنے مقاصد کو حاصل کر لے گا۔

اسرائیل کے لیے علاقے میں سعودی عرب کی جانب سے کشیدگی پیدا کرنے کی اہمیت کی دوسری وجہ، عالم اسلام کے اصلی مسئلے یعنی مسئلہ فلسطین سے توجہ کو ہٹانا ہے کہ جو یقینی طور پر اسرائیل کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے لیے ریاض کے اقدامات کا تیسرا فائدہ اسلامی ممالک کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات کی قباحت کا ختم ہونا ہے۔

درحقیقت اسرائیل نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ کا خیرمقدم کر کے عالم اسلام کے ایک حصے کو الگ کیا ہے اور وہ انھیں اپنے نام نہاد اتحادیوں کے زمرے میں داخل کر رہا ہے۔ اس طرح وہ خود کو عالمی سطح پر تنہائی سے باہر نکالنے کے ساتھ ساتھ اسلامی سرزمینوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ اس بنا پر سعودی عرب ایران کے ساتھ کشیدگی پیدا کر کے اور ہنگامہ کھڑا کر کے درحقیقت اسرائیل کے ساتھ ہمنوائی کرنا چاہتا ہے اور شاید کسی بھی عرب ملک نے اس حد تک صیہونی حکومت کی خدمت نہ کی ہو۔

ٹیگس