سیاسی اور اقتصادی تعاون میں توسیع پر تہران اور برلن کی تاکید
جرمن وزیر خارجہ کے دورۂ تہران پر بہت سے سیاسی اور اقتصادی حلقوں کی توجہ مرکوز ہوگئی ہے۔
فرانک اشٹائن مائر منگل کے دن شام کے وقت ایک اعلی سطحی سیاسی اور اقتصادی وفد کو ساتھ لے کر تہران پہنچے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے جرمن ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں ایران اور جرمنی کے دیرینہ تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اشٹائن مائر کے ساتھ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد، خطے کی صورتحال، انتہا پسندی اور دہشت گردی کےبارے میں تبادلۂ خیال کیا گيا۔
جرمن وزیر خارجہ نے ایسی حالت میں تہران کا دورہ کیا ہے کہ جب شام کےبحران کے بارے میں جنیوا میں مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے، دہشت گرد گروہ داعش خطے اور یورپ میں اپنے دہشت گردانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور یمن بھی سعودی عرب کی لگائي ہوئی جنگ کی آگ میں جل رہا ہے۔ سعودی عرب سمیت خطے کے بعض ممالک خطے میں بدامنی پھیلانے کے لئے کوشاں ہیں حالانکہ جنگ اور بحران سے کسی بھی ملک کو فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف ہے کہ خطے میں قیام امن پر صرف ان ممالک کو تشویش لاحق ہے جو اپنے ہتھیار فروخت کرنا چاہتے ہیں یا جن ممالک کو اپنی بقا بحران پیدا کرنے اور جنگ کی آگ بھڑکانے میں نظر آتی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ ایران اور جرمنی شام میں قیام امن میں مدد دینے والے گروہ کے دو ارکان کے طور پر باہمی تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
جرمن وزیر خارجہ نے بھی اس بحران شام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے بحران کے حل میں موثر کردار ادا کرنے والے تمام ممالک کو مدد دینی چاہئے تاکہ اس ملک میں امن قائم ہو سکے۔
اس وقت جرمنی اقتصادی اعتبار سے ایک طاقتور ملک شمار ہوتا ہے اور سیاسی میدان میں بھی وہ بہت سرگرم ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ برلن بین الاقوامی مسائل کے سلسلے میں اپنی خارجہ پالیسی میں کسی حد تک خود مختاری اور اس کے ساتھ ساتھ اعتدال و توازن قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔
گيارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعے کے بعد یورپ اور علاقے سے متعلق جرمنی کی خارجہ پالیسی میں بعض تبدیلیاں آئي تھیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ انیس سو نوے کے عشرے کے دوسرے نصف سے مشرق وسطی کے مسائل کے سلسلے میں برلن کی خارجہ پالیسی میں غیر محسوس اور ملائم تبدیلیاں آئيں اور ان سفارتی اقدامات کے اثرات سنہ دو ہزار دو سے تدریجا ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ محافظ امن فوجیوں کے طور پر مشرق وسطی میں فوجی بھیجنے، افغانستان میں فوجی روانہ کرنے، عراق میں فوجی کارروائي کی مخالفت اور ایران کے ساتھ ٹرائیکا کے ایٹمی مذاکرات کی تجویز پر مبنی جرمنی کے سابق چانسلر شروڈر کی تجاویز و پلان مشرق وسطی سے متعلق جرمنی کی نئي پالیسی کی چند مثالیں ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جرمنی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی نظر آتی ہے اور یہ پالیسی منطقی بھی ہے۔ اس پالیسی کی بنیاد شروڈر کی سوشل ڈیموکریٹ حکومت نے رکھی تھی اور اب اس پالیسی کو جرمنی کی موجودہ چانسلر انجیلا مرکل آگے بڑھا رہی ہیں۔
موجودہ صورتحال میں جرمنی ایک جانب اقتصادی اور صنعتی
طاقت کے تحفظ کے لئے کوشاں ہے اور دوسری جانب وہ اس پوزیشن میں ہے کہ علاقائي اور
بین الاقوامی مسائل کے سلسلے میں صرف تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتا ہے اور نہ
ہی دوسرے ممالک کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ ایران کے ساتھ گروپ پانچ جمع
ایک کے رکن کے طور پر ایٹمی مذاکرات کے دوران
جرمنی کی بھر پور موجودگی اور آزادانہ زاویۂ ہائے نگاہ سے اسی کردار کے تسلسل کی نشاندہی
ہوتی ہے۔ بنابریں مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد ایران کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات
میں توسیع پر مبنی جرمنی کی خارجہ پالیسی اہمیت کی حامل ہے۔ جرمنی ایران کے ساتھ
اقتصادی اور سیاسی تعاون کے لئے ضروری محرک کا حامل ہے اور وہ یورپ میں اپنے دوسرے
سیاسی حریفوں کی نسبت خطے میں زیادہ بہتر طور پر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
انہی امور کی وجہ سے اشٹائن مائر کے دورۂ تہران کے سیاسی اور اقتصادی نتائج کے
بارے میں توقعات بڑھ گئي ہیں۔