جامع مشترکہ ایکشن پلان وزیر خارجہ کاتجزیہ
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران ہمیشہ سے مذاکرات کا حامی رہا ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران ہمیشہ سے مذاکرات کا حامی رہا ہے اور ایٹمی معاملے پر مذاکرات کرنا گیارھویں حکومت کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی نظام کا فیصلہ تھا۔ ایٹمی مذاکرات میں ایران نے واضح کردیا کہ سفارتکاری سے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک اہم طریقے کی حیثیت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
محمد جواد ظریف نے منگل کے دن داخلی اور بیرونی سرمایہ کاری پرجامع مشترکہ ایکشن پلان کے قانونی اثرات کے زیر عنوان منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اس زمانے میں ایران مخالف اقدامات اور ایرانوفوبیا کو دشمنوں نے سنجیدگی سے بڑھاوا دینا شروع کردیا تھا۔ ان سازشوں کے تحت ایسی فضا بنا دی گئی تھی کہ ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون اور ایران سے نزدیک ہونے کو انا کا مسئلہ بنادیا گیا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ ایران کے ساتھ تعاون کرنے اور اس سے قریب ہونے سے ملک کی بے عزتی ہوسکتی ہے۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ دنیا میں ایران کے خلاف ایسی فضا بنا دی گئی تھی کہ جس سے ایران کے خلاف ہر ناشائستہ اقدام کا جواز مل جاتا تھا اور یہ مسئلہ سیاسی اور اقتصادی امور کو بھی شامل تھا۔ اب جبکہ ایران کے ساتھ گفتگو کرنا ایک افتخار بن چکا ہے اور اب ایران کے ساتھ مذاکرات اور رابطہ برقرار کرنے کےلئے لوگوں کو لائین میں لگنا پڑ رہا ہے اسکے باوجود ایران کے خلاف دشمنیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔
محمد جواد ظریف نے اس سلسلے میں یہ بھی کہا کہ اگر کسی کو امریکہ کے اھداف کے بارے میں بدگمانی ہوتو بجا ہے کیونکہ امریکہ میں بھی مختلف گروہ ہیں جو ایران کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں اور ایران کے تعلق سے امریکہ کی پالیسیاں صحیح نہیں رہی ہیں۔ ان اقدامات کا ایک نمونہ ایران کے بارے میں امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کانگریس نے تیرہ تازہ اقدام کئے ہیں جن کا اضافہ ایران پر عائد غیر ایٹمی پابندیوں میں کیا گیا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی رپورٹ میں آیا ہے کہ دوہزار پندرہ کے اواخر اور اسکے بعد سے امریکی قانون ساز اسمبلی نے ایران کے خلاف تیرہ اقدامات کئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غیر ایٹمی پابندیوں سے ہے۔ ان اقدامات سے پتہ چلتا ہےکہ اب بھی ایسے گروہ موجود ہیں جو ایران کے ساتھ تصادم میں اپنی بقا دیکھتے ہیں۔ وہ اب یہ کوشش کررہے ہیں اور یہ کوششیں کرتے رہیں گے کہ ہاتھ سے نکلے ہوئے مواقع کا تدارک کریں اور ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کریں اور ایٹمی معاہدے سے پہلے کے حالات جیسی فضا بنادیں۔
اس سلسلے میں وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے سعودی عرب کی کشیدگی پیدا کرنے کی پالیسیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ سعودی عرب کی حکومت نے علاقے میں غیر منطقی اور بچکانہ پالیسیاں اپنا رکھی ہیں اور وہ دوسروں کو خطرے میں ڈالنے سے پہلے خود ہی کو نقصان پہنچالے گا اور وہ اسی تصور کی اساس پر سوچ رہا ہےکہ پہلے جیسے حالات کی طرف لوٹا جاسکتا ہے۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ سعودی عرب نے ایسی پالیسیاں کیوں اپنائی ہیں؟ اس کے دیگر اسباب بھی موجود ہیں۔
سعودی عرب آج یمن کی جنگ کے دلدل میں گرفتار ہوچکا ہے اور اس نے تکفیری صیہونی دہشتگرد گروہ داعش کی حمایت کرکے دنیا میں دہشتگردی اور انتہا پسندی پھیلادی ہے۔ سعودی عرب نے اپنے غیر منطقی اقدامات کے ذریعے تیل کی منڈی کو متزلزل کردیا ہےاور داخلی سطح پر عوام کو کچلنے اور گردنیں کاٹنے کی پالیسیاں اپنا کر عوام کے احتجاج کو آہنی مکے کی پالیسیوں سے دبانے کی کوشش کی ہے۔ سعودی عرب اب یمن کے نہتے عوام پر اپنی وحشیانہ بمباری کا جواز پیش نہیں کرسکتا۔ اسی بنا پر یہ کوشش کررہا ہے کہ اپنے ان مسائل اور جرائم کو ایرانو فوبیا کے پردے میں چھپادے۔ سعودی عرب کے ان سیاہ کارناموں سے صیہونی حکومت بھی بے بہرہ نہیں رہے گی۔
یاد رہے صیہونی حکومت اس پوزیشن میں بھی نہیں ہےکہ وہ تینتیس روزہ اور بائیس روزہ جنگوں میں فلسطینیوں کے قتل عام اور غزہ کے محاصرے کا کوئی بہانہ پیش کرسکے لھذا اب صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ ایرانوفوبیا کے سہارے دوسروں کو مورد الزام ٹہرانا ہے۔ دراصل امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان بعض تضادات کے باوجود ان کے مشترکہ مفادات کی بنا پر وہ ایرانوفوبیا پر متمرکز ہیں تا کہ علاقے میں کشیدگی اور تناؤ کی فضا پیدا کرسکیں اور اپنی ماضی کی پالیسیوں کو جاری رکھ سکیں۔