فرانس کی مشرق وسطی امن تجویز
اسی کی دہائی سے شروع ہونے والے ساز باز مذاکرات کی ناکامی کے بعد اب فرانس نے مشرق وسطی میں بزعم خویش امن قائم کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔
فرانس نے تل ابیب میں اپنے سفیر کے ذریعے صیہونی حکومت کو باضابطہ طور پرمشرق وسطی میں امن کے تعلق سے پیریس میں انٹرنیشنل کانفرنس کرانے کی تجویز سے مطلع کردیا ہے۔ فرانس نے کہا ہے کہ یہ کانفرنس جون یا جولائی میں ہوگی۔ تل ابیب میں فرانسیسی سفیر پیٹریک موزینو نے صیہونی وزارت خارجہ کے بعض حکام سے ملاقات کرکے انہیں سرکاری طور پر مشرق وسطی کے امن کے سلسلے میں پیرس کانفرنس کی تجویز سے آگاہ کیا۔ فرانس کی تجویز کے تین مرحلے ہیں اور طے پایا ہے کہ آئندہ دنوں میں فرانس کے نئے وزیر خارجہ ژان مارک آیرو یورپی یونین کو اس تجویز سے آگاہ کریں گے۔
فرانس نے اپنی اس تجویز کی تفصیلات سے واشنگٹن، لندن برلین، ماسکو اور دیگر یورپی اور عربی ملکوں کو آگاہ کردیا ہے۔ فرانس نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیل پیرس عالمی کانفرنس کے سلسلے میں فرانس کو مثبت جواب نہیں دیتا ہے تو وہ انیس سو سڑسٹھ کی سرحدوں میں فلسطین کے مستقل ملک کو تسلیم کرلے گا۔
فرانس کی تجویز تین مرحلوں پر مشتمل ہے اور اس میں اس تجویز کے بارے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنا، اسرائیل اور فلسطینیوں کے بغیر مذاکرات کے حامی گروہوں کی نشست کروانا، اور سرانجام پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس شامل ہیں۔ صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو نے پیرس میں مشرق وسطی عالمی امن کانفرنس کرانے کی تجویز پر تنقید کی ہے۔نیتن یاھو نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ دوطرفہ اور بغیر کسی شرط کے مذاکرات کرنا ہی علاقے میں قیام امن کا واحد ممکن راستہ ہے اور فرانس کی تجویز ایک انحرافی تجویز ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل یہ چاہتا ہےکہ انیس سو اکانوے سے اب تک ہونے والے مذاکرات کو نظرانداز کردیا جائے۔ انہوں نے کہا وہ فلسطین کے ساتھ بغیر کسی ثالث کے اور شروع سے مذاکرات کرنے کے خواہاں ہیں۔
واضح رہے فرانس کی تجویز بھی اس سے پہلے کی مشرق وسطی میں قیام امن کی ریگن تجویز کی طرح ہی ہے۔امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن نے انیس سو اسی میں مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کی غرض سے ایک تجویز پیش کی تھی جو ان کے نام سے معروف ہوئی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی ثالثی سے عربوں اور اسرائیل کے درمیاں امن قائم کرنے کے لئے پہلا قدم اٹھایاتھا۔ رونالڈ ریگن ڈیموکریٹ صدر جمی کارٹر کے بعد وائٹ ہاوس پہنچے تھے جنہوں نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے مصر اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کیا تھا اور اس کامیابی کا سہرا ڈیموکریٹس کے نام باندھا تھا۔
اسی بنا پر کیمپ ڈیویڈ کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ریگن کی امن تجویز پیش کی گئی۔یاد رہے کیمپ ڈیویڈ معاہدے میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کی بات کی گئی تھی۔ البتہ ریگن اپنی تجویز کو سرانجام تک پہنچانے میں ناکام رہے لیکن ان کے جانشین سینئر جارج بش نے ان کی راہ کو جاری رکھتے ہوئے امریکہ کی نگرانی اور ثالثی میں عربوں اور اسرائیل کے پہلے مذاکرات کروائے۔
عرب اور اسرائیل مذاکرات کے تحت ان کے درمیان دو طرفہ اور اقوام متحدہ اور علاقائی اور دیگر ملکوں کی شمولیت سے چند طرفہ مذاکرات انجام پائے تھے جو ناکام رہے۔ فلسطین کے ساتھ مذاکرات، دوہزار نو میں نیتن یاھو کے برسراقتدار آنے کےبعد تعطل کا شکار ہوگئے۔ ایسے حالات میں فرانس کی تجویز اسی اور نوے کی دہائی کی طرف غیر منطقی طور سے واپس پلٹنے کے معنی میں ہے کیونکہ ان برسوں میں کی جانے والی کوششوں سے فلسطین پر قبضے کے خاتمے اور اسرائیل کی توسیع پسندی کی روک تھام اور مستقل فلسطینی ملک کی تشکیل کی کوشش ناکام ہوگئیں اور اب دوہزار سولہ میں بھی مقبوضہ فلسطین میں انسانیت سوز جرائم ہر روز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔