اوپیک کے سیکرٹری جنرل کی تیل کی قیمتوں کو مستحکم بنانے کی کوششیں جاری رکھنے پر تاکید
تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے سیکرٹری جنرل عبداللہ البدری نے امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں ایک کانفرنس میں سعودی عرب اور روس کے حالیہ اتفاق رائے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اتفاق رائے کے کامیاب ہونے کی صورت میں اوپیک دوسرے قدم اٹھائے گا۔
اوپیک کے سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے رکن کی حیثیت سے سعودی عرب اور روس نے کہ جو اوپیک کا رکن نہیں ہے، گزشتہ ہفتے قطر اور ونزویلا کے ساتھ ایک مشترکہ اجلاس میں تیل کی پیداوار جنوری کی سطح تک مستحکم رکھنے کے بارے میں اتفاق کیا تھا اس شرط کے ساتھ کہ تیل پیدا کرنے والے دوسرے ممالک بھی اس اتفاق رائے میں شامل ہو جائیں۔ اس کے بعد ایک اور اجلاس ایران کی وزارت پیٹرولیم کی میزبانی میں تہران میں منعقد ہوا۔ تہران اجلاس میں ایران، عراق، ونزویلا اور قطر کے وزرائے پیٹرولیم نے شرکت کی۔
ایران کے وزیر پیٹرولیم بیژن نامدار زنگنہ نے اس اجلاس کے بعد کہا کہ ہم اوپیک اور غیراوپیک کے درمیان تعاون کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں کہ اوپیک کے رکن ممالک اور غیراوپیک ممالک منڈی مستحکم بنانے اور تیل پیدا اور استعمال کرنے والوں کے فائدے میں قیمتوں کو مستحکم اور بہتر بنانے کے لیے اپنی تیل کی پیداوار کی سطح کو باقی رکھیں۔ اس وقت تقریبا بیس لاکھ بیرل اضافی تیل منڈی میں آ رہا ہے۔ اس میں سے پندرہ لاکھ بیرل سے زائد تیل سعودی عرب منڈی میں بھیج رہا ہے کہ جو اوپیک میں سعودی عرب کے معین کردہ کوٹے سے زیادہ ہے۔ سعودی عرب روزانہ تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ بیرل تیل پیدا کر رہا ہے۔ اس طرح اور روس کے ساتھ کیے جانے والے اتفاق رائے کے باوجود سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے گزشتہ ہفتے فرانس پریس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک تیل کی پیداوار میں کمی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
دو ہزار چودہ کے وسط سے لے کر اب تک تیل کی قیمتوں میں تقریبا تین چوتھائی کمی واقع ہو چکی ہے اس وقت تیل کی قیمت تقریبا تیس ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ پچھتر برسوں کے دوران ہمیشہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت میں اضافہ دنیا میں بحران کا باعث بنا ہے لیکن اس مرتبہ تیل کی قیمت میں کمی تشویش کا باعث بنی ہے۔ توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی نے پیر کے روز اعلان کیا کہ امریکہ میں شیل تیل کی پیداوار میں رواں سال اور آئندہ سال کے دوران کمی واقع ہو گی۔
اٹلی کے اخبار ایل سولہ ونتی کواترو اورہ نے اپنے ایک مضمون میں تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اپنی اضافی پیداوار کم کرنے کی مخالفت سے یہ ظاہر ہو گیا کہ ریاض کا مقصد ایران اور شیل تیل کو نقصان پہنچانا ہے۔ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں کام کرنے والے کھدائی کے پلیٹ فارموں کی تعداد دسمبر دو ہزار نو سے اب تک کمترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
سعودی عرب اوپیک کی طرف سے مقرر کیے گئے کوٹے سے زیادہ تیل پیدا کر کے دنیا میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا اصلی سبب بنا ہے۔ ایسے حالات میں تیل پیدا کرنے والے ممالک سے اوپیک کے سیکریٹری جنرل کی درخواست منڈی کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے اوپیک کے رکن اور غیر رکن ملکوں کے درمیان تعاون پر مثبت نظر کا نتیجہ ہو سکتی ہے لیکن تیل کی پیداوار میں اضافے کا مسئلہ ایک سیاسی محاذ آرائی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس بنا پر تیل کی منڈی کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے۔