Mar ۰۵, ۲۰۱۶ ۱۳:۲۵ Asia/Tehran
  • ترکی کے وزیراعظم تہران کے اہم دورے پر

ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو ایک اعلی سطحی سیاسی و اقتصادی وفد کے ہمراہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری دورے پر جمعہ کی رات تہران پہنچے۔

ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری اور ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے آج ہفتے کے روز تہران کے سعد آباد محل میں سرکاری استقبال کی تقریب کے بعد دو طرفہ مذاکرات انجام دیے۔

ترکی کے وزیر اعظم نے اپنے دورہ ایران سے قبل کہا کہ وہ ایرانی حکام کے ساتھ تمام اہم مسائل پر بات چیت کریں گے۔ ان کا اشارہ علاقے کے ان مسائل کی طرف ہے کہ جو تہران اور انقرہ کے تعلقات میں انتہائی اہم اثرات اور کردار کے حامل ہیں۔

بعض مبصرین کی نظر میں ایران اور ترکی کے درمیان شام کے بارے میں اختلاف رائے قابل توجہ ہے اور بعید ہے کہ یہ اختلافات تیزی کے ساتھ کم ہو سکیں۔ لیکن اس کے باوجود ترکی کے اعلی رتبہ وفد کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دو طرفہ مذاکرات کا اصلی محور تجارتی و اقتصادی امور کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے تعلقات کا فروغ اور دونوں ملکوں کے تجارتی لین دین کی شرح کو تیس ارب ڈالر تک بڑھانے کے بارے میں بات چیت ہو گی۔

ترکی کے توانائی اور ترقی کے وزرا کے علاوہ کابینہ کے اعلی عہدیدار اور تجارت کے اعلی حکام( تجارتی وفد) بھی اس دورے میں احمد داؤد اوغلو کے ساتھ ایران آئے ہیں۔ ایران کے ساتھ ترکی کے تجارتی تعلقات دو ہزار بارہ میں تقریبا بائیس ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے لیکن اس وقت یہ تجارتی لین دین نصف سے بھی کم ہو چکا ہے اس کی وجہ ایران پر پابندیوں کے علاوہ تہران اور انقرہ کے اختلافات بھی ہیں۔

ایران اور ترکی دو ہمسایہ اور مسلمان ملک ہیں اور ان کے مشترکہ مفادات ہیں۔ اس بنا پر اس کے باوجود کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مختلف ادوار میں کشیدگی کا شکار رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ تعلقات باقی رہے ہیں۔

ترکی کے وزیر اقتصاد مصطفی علی تاش نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ انقرہ دو ہزار تئیس تک ایران کے ساتھ اپنی باہمی تجارت کو تیس ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اس وقت ترکی کے اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد کی ایران میں موجودگی کے لیے بہت سے محرکات اور مواقع موجود ہیں۔

ترک وزیراعظم کا یہ دورہ ایسے حالات میں انجام پا رہا ہے کہ جب علاقے کے حالات خصوصا شام کے موجودہ حالات نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ترکی کے تعلقات پر سایہ ڈال رکھا ہے۔ ترکی کی جانب سے شام میں روس کے جنگی طیارے کو مار گرائے جانے کے واقعہ نے بھی انقرہ اور ماسکو کے تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ روس کی جانب سے ترکی کے خلاف لگائی جانے والی بعض پابندیاں بھی اسی کشیدگی کا نتیجہ ہیں کہ جن کی وجہ سے ترکی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

ایسے حالات میں ایران ترکی کے تاجروں کے لیے ایک بہت ہی اہم اور پرکشش منڈی ہے۔ ایران اور ترکی اقتصادی تعاون کی تنظیم ایکو اور گروپ ڈی ایٹ کے رکن ممالک ہیں۔ اس بنا پر یہ تجارتی ترقی و فروغ ان امور میں شامل ہے کہ جن کا اس دورے کے دوران جائزہ لیا جائے گا۔

واضح سی بات ہے کہ علاقے کے موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ دونوں ممالک تمام مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق رائے رکھیں گے۔ ترکی سعودی عرب کے ساتھ مل کر شام مخالف موقف اور پالیسی اپنائے ہوئے ہے جبکہ ایران کا خیال ہے کہ اس قسم کی پالیسی علاقے کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

لیکن اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ایران اور ترکی ایک ایسے علاقے میں واقع ہیں کہ جس کو بڑے اور گہرے مسائل کے ساتھ ساتھ مشترکہ خطرات کا سامنا ہے۔

ان خطرات کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ہمفکری کو مضبوط بنانا، علاقے کی تبدیلیوں کا مشترکہ ادراک کرنا اور مشترکہ مفادات کی شناخت کرنا ہے۔ اس بنا پر توقع کی جا رہی ہے کہ ترکی کے وزیراعظم کا دورہ ایران اور ایرانی حکام کے ساتھ ان کے مذاکرات بہت زیادہ موثر واقع ہو سکتے ہیں۔

ٹیگس