May ۱۰, ۲۰۱۶ ۱۶:۵۱ Asia/Tehran
  • امریکہ، ایران کے بینکنگ کے لین دین میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ یورپی اور ایشیائی ملکوں کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں گرمجوشی آنے کے باوجود مالی اداروں اور بینکوں اور اسی طرح بڑے بڑے تاجروں کو بدستور امریکی پابندیاں عائد ہونے کے بارے میں تشیوش لاحق ہے۔

اکثر بڑے بڑے غیرملکی بینک ایران میں واپس آنے کی درخواست کو امریکہ کے گزشتہ بھاری جرمانوں اور ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ لگانے پر تشویش سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر رد کر رہے ہیں۔

اس تشویش کو دور کرنے کے لیے امریکی حکام نے دنیا کے پندرہ ملکوں کے بینکوں اور مالی اداروں کے نمائندوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی تاکہ انھیں ایران کے ساتھ بینکنگ تعلقات کی بحالی کے بارے میں اطمینان دلا سکیں۔

المانیٹر نیوز ویب سائٹ نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں لکھا ہے کہ اس بارے میں امریکی حکام کے صلاح و مشوروں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔

یورپی ملک سرمایہ کارکمپنیوں کو یہ ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ صدی کی ایک بڑی تجارتی منڈی کی حیثیت سے ایران کے ساتھ تعاون اور لین دین کے موقع سے بھرپورفائدہ اٹھائیں لیکن قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعمل درآمد کے سلسلے میں امریکی پالیسیاں یورپی یونین کی پالیسیوں سے تضاد رکھتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں ایران کے تجارتی فریقوں کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا باعث بنی ہیں۔

ایک باخبر تجارتی ذریعے نے اس سلسلے میں المانیٹر کو بتایا کہ امریکی وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کے حکام نے گزشتہ ہفتے ہونے والی کانفرنس میں سوئٹزرلینڈ کے دو بینکوں کریڈٹ اور یو بی ایس کے ساتھ اس سلسلے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔

یو بی ایس کے ترجمان گریگ روزنبرگ نے المانیٹر کو بتایا کہ ان کا بینک ایران کے ساتھ تجارت سے متعلق پیسوں کا لین دین کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ انھوں نے المانیٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ کی مجموعی پالیسیوں میں کہ جو ایران کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرتی ہیں، کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

برطانوی بینکوں کی یونین نے بھی اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ برطانوی بینک چاہتے ہیں کہ امریکی حکام زیادہ شفافیت کا مظاہرہ کریں۔

اسکائی نیوز چینل نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ برطانوی بینکوں کی یونین (بی بی اے) نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ تہران کے ساتھ بینکنگ تعلقات بحال کرنے کے مقصد سے ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے نتائج کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اس نیوز چینل نے ایران بھیجے گئے برطانوی وزیراعظم کے خصوصی ایلچی لارڈ لامونٹ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ برطانیہ کو ایران پرعائد پابندیوں اور پابندیوں کے عرصے کے دوران ایران کے ساتھ قانونی تجارت میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے فرانس، جرمنی اوراٹلی سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

یورپ کے مالی ادارے امریکہ کی ابتدائی پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران کے ساتھ تعاون کرنے کے سلسلے میں شش و پنج کا شکار ہیں اور اسی بنیاد پر وہ ایران کے ساتھ براہ راست رابطوں کو محدود کر رہے ہیں۔

یہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایٹمی مذاکرات کے بعد ایران کا سفارتی شعبہ مالی اور بینکنگ کی پابندیوں کے خاتمے کو شفاف بنانے کے لیے اقتصادی سفارت کاری کو سنجیدگی سے انجام دے۔ کیونکہ پابندیوں کے مکمل خاتمے سے ہی تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

امریکہ نے درحقیقت مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعمل درآمد میں باہمی وعدوں کو مشکوک بنا دیا ہے اوراقوام متحدہ کو مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں سلامتی کونسل کی منظور شدہ قرارداد کے تناظر میں اس سلسلے میں مداخلت کرنی چاہیے۔

امریکی حکومت نے اسی طرح داخلی عدلیہ کے فیصلوں کی آڑ میں اقدامات کرکے ایران کے اثاثوں پرڈاکہ ڈالا ہے۔ ایران کے اثاثوں کے خلاف امریکی عدالتوں کا بےبنیاد، غیرمنطقی اور غیراصولی اقدام، بین الاقوامی اصول و قوانین کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ امریکہ کے ان اقدامات پر بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کو کارروائی کرنی چاہیے۔

ٹیگس