عراق: اہل سنت کے اتحاد کی شرائط فائدہ مند یا نقصان دہ
عراق کے حکام ملک کا سیاسی بحران حل کرنے کے کوششیں کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ نے بھی دوبارہ اپنا کام شروع کر دیا ہے دریں اثناء اس ملک کے اہل سنت اتحاد نے پارلیمنٹ میں واپسی کے لئے شرطیں رکھ دی ہیں۔
عراق کے اہل سنت اتحاد نے ایک بیان میں اصلاحات پر مبنی وزیر اعظم کے وعدے کو عملی جامہ پہنائے جانے اور عوامی رضاکار فورس کے ساتھ نیم فوجی دستوں کا رابطہ واضح کئے جانے کو پارلیمنٹ میں اپنی واپسی کی شرائط قرار دیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب عراقی کردستان کے علاقے کے سربراہ نچیروان بارزانی نے کردستان اتحاد سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ اور وزیروں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک کو سیاسی بحران سے باہر نکالنے کے لئے بغداد واپس لوٹ جائیں اور پارلیمنٹ اور کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کریں۔
عراقی پارلیمنٹ میں چار کرد دھڑوں نے بارزانی کی اپیل کے باوجود پیر کے دن کہا کہ وہ بغداد واپس لوٹنے پر قادر نہیں ہیں۔ لیکن انہوں نے پارلیمنٹ کا جامع اجلاس بلانے کا راستہ ہموار کرنے پر تاکید کی۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے بھی سیاسی بحران کے حل کے لئے کی جانے والی داخلی کوششوں کے دوران پیر کے دن پارلیمنٹ سے اپیل کی کہ ٹیکنوکریٹ کابینہ کے لئے باقی ماندہ نامزد وزیروں کے انتخاب کے لئے اجلاس کا انتظام کریں۔
عراق کے سیاسی بحران کی وجہ سے اس ملک کا انتظام خصوصا دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت متاثر ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ ایک قانون ساز ادارے کے طور پر ملک کا انتظام چلانے کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہے۔ ہر ملک میں پارلیمنٹ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس قانون ساز ادارے کے بندہونے کے نتیجے میں ملک سیاسی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ حکومت کے منصوبوں کو اسی وقت عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے جب پارلیمنٹ ان کو منظوری دے چکی ہو اور عراق کی موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ سیاسی امور ایک طرح سے ٹھپ پڑے ہوئے ہیں۔ عراق ، کہ جسے تمام میدانوں میں داعش کی دہشت گردی کے ساتھ جنگ کا سامنا رہا ہے، کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر جو بھی شرط لگائی جائے وہ ایسی ہونی چاہئےکہ اس سے عراق کے امور کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہو نہ یہ کہ اس سے موجودہ صورتحال کی تقویت ہوتی ہو۔ عراق کے اہل سنت نے جو شرائط پیش کی ہیں وہ اس ملک کے قومی مفادات کے ساتھ میل نہیں کھاتی ہیں اور یہ شرائط عراق کے بحران کے سیاسی حل کے لئے کی جانے والی کوششوں کی راہ میں ایک طرح سے رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہیں۔
اس اتحاد نے ایسی حالت میں حیدر العبادی کے مدنظر اصلاحات کو عملی جامہ پہنائے جانے کو پارلیمنٹ میں اپنی واپسی کی شرط قرار دیا ہے کہ جب عراقی وزیر اعظم کے مدنظر اصلاحات کو عملی جامہ پہنایا جانا پارلیمنٹ کے اراکین کی جانب سے ان کے منظور کئے جانے پر منحصر ہے۔ حکومت اور پارلیمنٹ ملکی انتظام چلانے کے لئے لازم ملزوم ہیں اور یہ ایک دوسرے کے تکمیل کنندہ ہیں۔
عوامی رضاکار فورس کے ساتھ نیم فوجی دستوں کے رابطے کےبارے میں بھی عراق کے اہل سنت اتحاد کا موقف ایک سیاسی موقف ہے اور اس سے عراق کے سیاسی بحران کے حل میں بھی کوئی مدد نہیں ملے گی۔ عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی مختلف عوامی طبقات پر مشتمل ہے جو داعش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراقی فوج کی مدد کر رہی ہے۔ عوامی رضاکار فورس کے درمیان خلیج پیدا کرنا اور ان میں سے بعض پر نیم فوجی دستوں کا لیبل لگانا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہےاور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ شیعہ ، سنی، کرد اور قبائل سب ہی عوامی رضاکار فورس کی صورت میں ایک ہی پیج پر داعش کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ عوامی رضاکار فورس کو عراقی معاشرے میں بہت مقبولیت حاصل ہے۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کے مطابق سیاسی بحران کے داعش کے ساتھ جنگ پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کےپیش نظر عراق کو آج حقیقت پسندی، عراقی گروہوں کے زیادہ سے زیادہ اتحاد اور پارلیمانی اجلاسوں کے انعقاد کی ضرورت ہے۔
عراق کے اراکین پارلیمنٹ کی تعمیری کارکردگی کے نتیجے میں حکومتی اصلاحات پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہوگی اور اس سے عراق کی سیکورٹی فورس مضبوط ہوں گی اور وہ بہتر طور پر ملک میں قیام امن کے سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل کرسکیں گی اور داعش کے وحشی دہشت گردوں کے ساتھ جنگ میں بھی کامیابی حاصل کریں گی۔