Jun ۱۹, ۲۰۱۶ ۱۵:۳۴ Asia/Tehran
  • امریکہ کی جانب سے محمد بن سلمان کی بادشاہت کو ہری جھنڈی

سعودی عرب کے ولیعہد کے جانشین کے تقریبا ایک ہفتے کے دورۂ امریکا کے موقع پر علاقے کے سیاسی مسائل کے بارے میں بات چیت اور صلاح و مشورہ کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے بیمار اور بوڑھے بادشاہ کے بیٹے کی بادشاہت کے بارے میں بھی بات چیت کی گئی۔

رائے الیوم جریدے کے مدیراعلی عبدالباری عطوان نے سعودی عرب کے بادشاہ کے بیٹے محمد بن سلمان کے دورۂ امریکا کے بارے میں کہا کہ محمد بن سلمان کا سعودی عرب کے موجودہ اور آئندہ بادشاہ کے طور پر امریکا میں استقبال کیا گیا ہے۔ عطوان کے بقول جن لوگوں نے محمد بن سلمان کے دورۂ امریکا کو قریب سے دیکھا اور جائزہ لیا ہے وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس دورے کو ایسے ظاہر کیا گیا ہے جیسے یہ سعودی حکومت کی تیسرے نمبر کی شخصیت کا نہیں بلکہ سربراہ حکومت کا امریکا کا دورہ ہے۔

محمد بن سلمان سعودی عرب کے بادشاہ اور ولیعہد کے بعد اس ملک کے تیسرے نمبر کے شخص سمجھے جاتے ہیں۔ محمد بن سلمان سعودی عرب کے موجودہ ولیعہد محمد بن نائف کے جانشین ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک کے وزیر دفاع بھی ہیں۔ محمد بن نائف بھی سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی مانند بیمار ہیں۔

سعودی عرب کے اسی سالہ بادشاہ نے محمد بن سلمان کو محمد بن نائف کا جانشین مقرر کر کے بادشاہت کا راستہ اپنے بیٹے کے لیے ہموار کر دیا ہے۔ محمد بن سلمان کے دورۂ امریکا کے بعد امریکی اخبارات نے سعودی عرب کے موجودہ ولیعہد محمد بن نائف کے شدید بیمار ہونے کی خبریں شائع کی ہیں۔

سعودی عرب کے ولیعہد کی بیماری کی بات میڈیا میں آنے کے بعد امریکا کے خفیہ اداروں کے سابق افسر اور مشرق وسطی کے امور کے ماہر بروس ریڈل نے کہا کہ امریکا کی موجودہ حکومت نے شہزادہ محمد بن سلمان کو واشنگٹن کے سرکاری دورے کی دعوت دی، کیونکہ وہ بہت جلد سعودی عرب کے بادشاہ بن جائیں گے اور وائٹ ہاؤس کا مقصد یہ تھا کہ امریکی حکام قریب سے محمد بن سلمان سے آشنا اور واقف ہو سکیں۔

اس بات کے پیش نظر کہ محمد بن نائف بھی امریکہ کے نزدیک پسندیدہ شخص ہیں لیکن بیمار ہونے کی وجہ سے ان کے بادشاہ بننے کا چانس نہیں ہے، اس لیے امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا کے جوان بیٹے کو آزمایا جائے۔

امریکا کے خفیہ اداروں کے تین اعلی افسروں کے بقول کہ جنھوں نے محمد بن نائف کی جسمانی صحت و سلامتی کا جائزہ لیا ہے، وہ بادشاہ نہیں بنیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے اسی سالہ بادشاہ بھی اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کا بیٹا بادشاہ بن جائے۔ جب سلمان بن عبدالعزیز سعودی عرب کے بادشاہ بنے تھے تو محمد بن سلمان ملک میں تیسرے نمبر کی شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ بادشاہ کی ہری جھنڈی سے تمام امور کی ذمہ داری وزیر دفاع نے اپنے پاس رکھ لی اور کہا جا سکتا ہے کہ محمد بن سلمان ہی سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی معاملات کو چلا رہے ہیں۔

بادشاہ کے بیٹے کی فرمانروائی کے لیے راستہ ہموار ہونے سے سعودی عرب کی حکومت کے اندر بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد محمد بن سلمان کے متنازعہ اقدامات پر سعودی ولیعہد محمد بن نائف سمیت مخالفین کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں اور انھوں نے سعودی عرب کی موجودہ صورت حال کو سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی میدانوں میں محمد بن سلمان کی مہم جوئی کی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا۔

جنگ یمن میں سعودی عرب کی شکست، بحران شام میں ریاض کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی اور محمد بن سلمان کے ماتحت سعودی حکام کی خاص طور پر اقتصادی میدان میں ناکامی سے سعودی بادشاہ کے بیٹے پر تنقید میں اضافہ ہو گیا ہے۔

سعودی عرب کی حکومت کے اندر اختلافات اور تخت سلطنت تک پہنچنے کے لیے سلمان بن عبدالعزیز کی کوششیں، سعودی عرب میں ایک قسم کی خاموش بغاوت کی عکاسی کرتی ہیں۔

ٹیگس