ایران کے خلاف سعودی عرب کی دشمنانہ پالیسیوں پرایک نظر
علاقائی تبدیلیوں میں سعودی حکام کا غیر منطقی کردار اور سعودی بادشاہت کو مستحکم بنانے کے لئے انتہا پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لئے ان کے اصرار پر بیشتر صحافتی اور سیاسی حلقوں نے کڑی تنقید کی ہے۔
اخبار مصر ٹائمز نے اتوار کے روز ایک مضمون میں علاقے میں سعودی عرب کےغیر منطقی کردار کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران، سعودی حکام کا ڈراؤنا خواب بنا رہا ہے۔
اس مقالے کے ایک حصے میں آیا ہے کہ شہزادوں میں اقتدار کی تقسیم کے اعتبار سے سعودی عرب کا اندرونی ماحول، اس کے باوجود کہ شاہ سلمان اوران کے بیٹے کے حق میں بنا ہوا ہے، تقریبا تینتالیس اعلی عہدیداروں کی تبدیلی اور تیرہ اداروں اور وزارت خانوں کو مدغم کئے جانے کو اقتدار کے ڈھانچے میں صفائی اور محمد بن سلمان کو اقتدار میں لانے کے لئے ضروری حربوں کی ضمانت قرار دیا جاسکتا ہے جس سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ولی عہد کے عہدے سے محمد بن نائف کو ہٹایا جا سکتا ہے۔
مصر کے اس اخبار کے مطابق سعودی عرب کے مسائل و مشکلات، صرف اندرونی اور سیکیورٹی، سماجی اور اقتصادی پہلوؤں تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس ملک کو علاقائی سطح پر بھی مختلف مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ شام اورعراق میں تکفیریوں کی مہم جوئی اور جنگ یمن نے تاریخ میں سعودی حکام کا ناکام اور بے تحاشا اخراجات کا حامل خونریز کارنامہ درج کیا ہے جس سے سعودی عرب کو شرمسار بھی ہونا پڑا ہے۔
اس کارنامے میں صیہونی حکومت سے سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات جیسا قابل غور مسئلہ بھی شامل ہے۔ صیہونی حکام نے حال ہی میں ہرتزیلیا کانفرنس میں کھل کر اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بعض عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے متعلق مثبت رویہ اختیار کیا ہے اور اب اسرائیل کو سعودی عرب کی بھی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔
اسرائیل کے فوجی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ ہرٹز ہالیوئے نے اس کانفرنس میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ رونما ہونے والی یہ تمام تبدیلیاں، اسرائیل کے مقاصد سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں اور شام و یمن کی جنگوں میں اسرائیل نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا ہے۔
درحقیقت یہ کہا جاسکتا ہے کہ صیہونی حکام، استقامت کے محاذ اور ایٹمی معاہدے کے بعد کے دور میں ایران کے بڑھتے ہوئے اسٹریٹیجک کردار کے خوف سے باہر نکلنے کے لئے آل سعود اور اس کے تکفیری عناصرکو اپنی سلامتی کی ضمانت کی مانند سمجھتے ہیں۔ اسرائیل اس پالیسی سے سعودی حکام سے سرزد ہونے والی غلطیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، رائے عامہ اور علاقے کے ملکوں کی ساری توجہ صیہونی حکومت کے بجائے ایک فرضی اورخود ساختہ دشمن کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب نے ایران کے خلاف جنگ کے لئے عراق کی صدام حکومت کو اربوں ڈالر فراہم کئے اور تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں مختلف ملکوں میں ایران کے سفارتی مراکز پر حملے کروائے اور ایران میں عدم استحکام اور بدامنی پھیلانے کے لئے ان دہشت گردوں کو استعمال کیا۔
سعودی عرب، تیل کی منڈی کا توازن بگاڑنے اور ایران کی تیل کی آمدنی کم کرنے کی غرض سے، بے تحاشا تیل برآمد کر کے حتی اپنی معیشت کو بھی نقصان پہنچانے پرآمادہ ہو گیا۔ اپنی ان حرکتوں سے سعودی عرب نے علاقائی و عالمی سطح پر اپنی جو تصویر پیش کی ہے وہ فتنہ گر،خونریز و بدامنی اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ملک کی صورت میں نمایاں ہوئی ہے۔
جیساکہ اتوار کے روز اٹلی کے اراکین پارلیمنٹ نے ایک بیان میں اقوام متحدہ کی، بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی فہرست سے سعودی عرب کا نام نکالے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس سلسلے میں یمن میں آل سعود کے جرائم پر توجہ اور اس ملک میں آل سعود کے وحشیانہ اقدامات کا جائزہ لئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صیہونی حکام، سعودی ڈالروں اور آل سعود کی حمایت یافتہ تکفیری دہشت گردی کو اپنے لئے امن کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک بھی سعودی عرب کو اربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کے منصوبے کے ساتھ اس ملک کو علاقے میں بحران پیدا کرنے کی پالیسیوں کی ترغیب دلانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ علاقے میں اپنی مداخلت کا جواز پیش کر سکیں۔
آل سعود کی سربراہی میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ بھی حقیقی دہشت گردی کے لئے سعودی عرب کی جاری حمایت کی پردہ پوشی کی غرض سے ہی، کیا گیا ہے۔
گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملے میں پندرہ سعودی شہریوں کے ملوّث ہونے کی رسوائی اور اس رسوائی کی دستاویزات منظرعام پر آنے کی روک تھام کے لئے ساڑھے سات سو ارب ڈالر کی دی جانے والی رشوت، سعودی عرب کا حقیقی چہرہ نمایاں کرتی ہے۔ حالانکہ سعودی عرب، اپنے جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد دعوؤں کا اعادہ کرتے ہوئے ایران پر دہشت گردی کی حمایت اور علاقے کے مختلف ملکوں کے اندرونی امور میں مداخلت کا الزام لگاتا ہے۔