کابل میں بم دھماکہ
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں غیر ملکی فوجیوں کی حامل مینی بس پر ہونے والے خودکش حملے میں چودہ افراد ہلاک ہو گئے۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے اعلان کیا ہے کہ یہ حملہ، کابل میں پیر کے روز ایک پرائیویٹ کمپنی سے متعلق نیپالی فوجیوں کی حامل گاڑی کے راستے میں ہوا۔ اس ترجمان کے مطابق اس حملے میں چودہ افراد ہلاک اور تیئیس دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
کابل پولیس کے سربراہ عبدالرحمان رحیمی کے حوالے سے موصولہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں افغان سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
افغانستان میں طالبان کے سابق لیڈر ملا عمر کی موت کے بعد اس ملک کے مختلف علاقوں منجملہ قندوز پر قبضہ کرنے کے لئے طالبان گروہ نے اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں جبکہ طالبان گروہ کے ایک اور سابق لیڈر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد انتقام لینے کے مقصد سے طالبان گروہ کے حملوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
افغان سیکورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے لیڈر ملا اختر منصور کی ہلاکت سے افغانستان میں امن کی برقراری میں نہ صرف یہ کہ کوئی مدد نہیں ملی ہے بلکہ مختلف گروہوں میں طالبان کے تقسیم ہو جانے کے بعد اس گروہ کے حملے اور زیادہ شدّت بھی اختیار کر گئے ہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان کے اعلی حکام نے بارہا اعلان کیا ہے کہ طالبان، اغیار کے ناپاک مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کابل حکومت پر دباؤ کے ایک ہتھکنڈے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان میں دسیوں سال کی جنگ و خونریزی کے تجربے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس ملک کے بحران کا راہ حل، جنگ نہیں ہے بلکہ قومی آشتی اور تعاون کا راستہ اختیار کر کے افغانستان میں پائدار امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
اس رو سے کہا جاتا ہے کہ ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ، دین کا لبادہ پہنے ہوئے ہیں، ان پر یہ تنقید بجا ہے کہ وہ کیسے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ طالبان عناصر بے گناہوں کا قتل عام کریں۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں بدامنی اور عورتوں و بچوں کے قتل عام نیز راستوں میں لوگوں کو اغوا کئے جانے سے نہ صرف یہ کہ افغان عوام خاص طور سے پختون قوم میں طالبان گروہ کی ساکھ بگڑ رہی ہے بلکہ کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کا امکان بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
دریں اثنا طالبان، جو اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ افغانستان سے غاصبوں کو نکال باہر کرنے کے لئے جنگ کر رہے ہیں، تشدد و بدامنی بڑھا کر درحقیقت امریکہ اور نیٹو کے لئے افغانستان پر قبضہ جاری رکھنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اسی لئے امریکہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ بڑھتے ہوئے تشدد کی بناء پرافغان عوام خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ جبکہ امریکی صدر بارک اوباما نے بھی افغانستان میں کارروائیوں کے لئے امریکی کمانڈروں کے اختیارات بڑھائے جانے کی منظوری دیدی ہے۔
دراصل امریکہ اور نیٹو نے افغانستان کو علاقے میں اپنے ایک فوجی اڈے میں تبدیل کر دیا ہے اور اس ملک میں فوجی موجودگی جاری رکھنے کے لئے ان کا سب سے بڑا بہانہ، بڑھتی ہوئی بدامنی ہے جبکہ طالبان گروہ، خاص طور سے افغانستان کے بڑے شہروں میں تشدد و بدامنی پھیلا کرعملی طور پر اپنے ملک میں امریکہ اور نیٹو کی فوجی موجودگی جاری رکھنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔