شاہ بحرین کی جانب سے آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت سلب کرنے کے حکم کی توثیق
بحرین کے بادشاہ نے سنیچر کو آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت سلب کئے جانے کے حکم کی توثیق کر دی ہے-
آل خلیفہ حکومت نے بحرین کے بزرگ عالم دین آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت سلب کئے جانے کے حکم کی منسوخی کے عالمی مطالبات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی توثیق کرتے ہوئے بحرین میں اپنے انحصاری اور سرکوبی پر مبنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش میں ہے-
بحرین کی وزارت داخلہ نے بیس جون دوہزار سولہ کو آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت سلب کئے جانے کا اعلان کیا تھا اس حکم کے قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لئے بحرینی بادشاہ کی دستخط کی ضروری تھی-
بحرینی بادشاہ نے شہریت کے حوالے سے انیس سو ترسٹھ کے آئین اور اس کی اصلاحات بالخصوص اس کی آٹھویں اور دسویں شق نیز اس ملک کی قومی کونسل کی سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت سلب کئے جانے کے حکمنامے پر دستخط کئے ہیں-
بحرین میں دوہزار چودہ میں آئین میں تبدیلی کے بعد ہر اس شہری کی شہریت سلب کر لی جاتی ہے جس کی سرگرمیوں کو بحرین کے شاہی حکومت کے مفادات کے نقصان میں سمجھا جائے- اس سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ کو صرف اپنی بقا کی فکر ہے اور اس کے قوانین بھی بین الاقوامی قوانین کے پوری طرح منافی ہیں-
بحرین میں مخالفین کی شہریت سلب کرنے کا آل خلیفہ کا اقدام ایسی حالت میں سامنے آیا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں آیا ہے کہ تمام افراد کو شہریت رکھنے کا حق حاصل ہے اور خودسرانہ اور من مانے طریقے سے کسی کو بھی شہریت سے محروم نہیں کیا جا سکتا -
اس تناظر میں بحرین میں اس ملک کے بزرگ عالم دین سمیت مخالفین کی شہریت سلب کیا جانا انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے سے پوری طرح منافی ہے کہ جس میں افراد کی قومیت کو مسلمہ حق سمجھا گیا ہے جسے چھینا نہیں جا سکتا اور شہریت سلب کیے جانے کو کسی طرح کی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے-
اقوام متحدہ کے حکام نے بھی با رہا کھل کر شہریت چھینے جانے بالخصوص بحرین کی عوامی تحریک کے رہنما آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت سلب کئے جانے کے حکومت کے اقدام کو ناقابل جواز قرار دیا ہے-
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان روینا شامداسانی نے چند روز قبل جنیوا میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں کہا کہ چونکہ آیت اللہ عیسی قاسم کے معاملے میں عدالتی کارروائیاں انجام نہیں پائی ہیں ہیں اور ان کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے ہیں اس لئے ان کی شہریت سلب کئے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے اور یہ ایک ناحق و بلاوجہ کا اقدام ہے- بحرین کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ کے بلاسوچے سمجھے اور تشدد آمیز اقدامات کا سلسلہ جاری رہنے کے سبب اس ملک کی صورت حال میں مزید بیچینی پیدا ہوئی ہے- درحقیقت آل خلیفہ حکومت سرکوبی اور گھٹن میں شدت پیدا کر کے اس ملک میں ہر طرح کی صدائے احتجاج کو روکنا چاہتی ہے-
بحرین میں آل خلیفہ کے ہاتھوں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اتنی اشکارہ ہو چکی ہے کہ ہر دیکھنے والا پہلی نگاہ میں اس کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے اور اس صورت حال پر نفرت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے- اور یہ موضوع بحرین کے سلسلے میں انسانی حقوق کے اداروں اور وفود کی رپورٹوں میں پوری طرح دیکھا جا سکتا ہے-
قابل ذکر ہے کہ بحرینی حکومت شہریتوں کے سلسلے میں دہرا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے کیونکہ بعض غیر ملکیوں کو شہریت دیتی ہے اور اس ملک کے کچھ شہریوں کی شہریت سلب کر رہی ہے-
بحرینی شہریوں کی شہریت سلب کرنا اور غیر ملکیوں کو شہریت دینے کے سیاسی محرکات ہیں کہ جس کا مقصد آل خلیفہ کی خواہشات کے مطابق اس ملک کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے-
آل خلیفہ کی یہ پالیسی مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت کے اقدامات کی یاد دلاتی ہے -
اس تناظر میں آل خلیفہ حکومت بحرین جانے والے غیر ملکی شہریوں کو موجودہ استبدادی حکومت کی پیروی کرنے کی شرط پر بحرینی شہریت دیتی ہے اور اس کے مقابلے میں بحرین کے اصلی شہریوں کو کہ جو آل خلیفہ کی پالیسیوں پر اعتراض کرتے ہیں ان کے ملک سے باہر نکال رہی ہے-