Jul ۱۱, ۲۰۱۶ ۱۹:۴۰ Asia/Tehran
  • سربرنیتسا کا قتل عام

دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں ہونے والے سب سے بڑے اجتماعی قتل عام کی اکیسویں برسی میں جو شہر سربرنیتسا کے قریب ایک دیہات میں منعقد ہوئی ، دسیوں ہزار افراد نے شرکت کی-

برسی کے موقع پر سربرنیتسا کے انسانی المیے کی بھینٹ چڑھنے والے مزید ایک سو ستائیس افراد کی لاشوں کی شناخت کے بعد انھیں سپرد خاک کیا گیا-

بوسنیا ہرزوگوینا کے عوام اور بعض بین الاقوامی شخصیتیں ہر سال گیارہ جولائی کو روایتی طور پر سربرنیتسا میں جمع ہوتی ہیں تاکہ اس قتل عام کی بھینٹ چڑھنے والے آٹھ ہزار سے زاید مقتولین کو خراج تحسین پیش کریں-

سربرنیتسا کا المیہ بوسنیا کی جنگ ختم ہونے سے پانچ مہینے پہلے اس وقت رونما ہوا جب بیس ہزار پناہ گزیں، صرب فوجیوں کے ہاتھوں سے بچنے کے لئے سربرنیتسا پہنچے تھے-

صرب فوجی کئی دنوں تک سربرنیتسا کے محاصرے کے بعد اس شہر میں داخل ہو گئے اور انیس سو پنچانوے میں بوسنیا کے آٹھ ہزار تین سو بہتر مردوں اور عورتوں کو قتل کردیا- یہ اجتماعی قتل عام جو دوسری عالمی جنگ کے بعد بیسویں صدی میں یورپ کا ایک تلخ ترین واقعہ ہے ، ایسے عالم میں رونما ہوا کہ اقوام متحدہ نے انیس سو ترانوے میں سربرنیتسا کو پرامن شہر قرار دیا تھا اور وہاں بین الاقوامی محافظ امن فوج تعینات تھی-

اب تک اس انسانی المیے میں قتل ہونے والے تقریبا سات ہزار افراد کی لاشوں کی شناخت کے بعد سپرد خاک کیا جا چکا ہے اور دیگر مقتولین کی لاشوں کی تلاش جاری ہے- عالمی عدالت نے بوسنیا کے صرب رہنما رادوان کاراجیچ کو انسانیت کے خلاف جرائم اور سربرنیتسا المیے کو جنم دینے میں موثر کردار ادا کرنے کے جرم میں مارچ میں چالیس سال قید کی سزا سنائی جبکہ اس وقت کے بوسنیا کے فوجی کمانڈر راتکو ملادیچ کے خلاف مقدمہ کی کارروائی اب بھی جاری ہے کہ جن کی کمان میں بوسنیا کے صرب فوجی سربرنیتسا میں داخل ہوئے تھے اور مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا-

سربرنیتسا کا المیہ ، درحقیقت جنگ اور تشدد کی انتہا تھی کہ جس میں انیس سو بانوے سے انیس سو پنچانوے تک بوسنیا کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا- بوسنیا ہرزوگوینا نے بھی کہ جہاں مسلمان اکثریت ہے سابق سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور مشرقی یورپ کے کمیونیسٹ نظام کے خاتمے کے بعد یوگوسلاویہ کی دیگر جمہوریاؤں کی مانند انیس سو بانوے میں آزادی و خودمختاری کا اعلان کیا-

صربیا نے یوگوسلاویہ کے وارث کی حیثیت سے اس خودمختاری کی مخالفت کی لیکن یوگوسلاویہ سے الگ ہو کر اپنی خود مختاری کا اعلان کرنے والی کسی بھی جمہوریہ کا بوسنیا کے مسلمانوں کی مانند دردناک انجام نہیں ہوا-

اگرچہ بہت سے یورپی ملکوں کی مانند دنیا کے ساٹھ سے زیادہ ممالک نے بوسنیا ہرزوگوینا کی خودمختاری کو تسلیم کیا تاہم بوسنیا ہرزوگوینا کے صربوں نے صربیا کی براہ راست حمایت اور یورپی حکومتوں کی خاموشی کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف خونریز جنگ شروع کر دی- تخمینے کے مطابق اس جنگ میں ایک لاکھ افراد قتل کئے گئے اور بوسنیا ہرزوگوینا کی تقریبا نصف آبادی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئی- بہرحال سربرنیتسا کا قتل عام، تشدد و بربریت کی انتہا پر پہنچ گیا اور ماڈرن یورپ کے قلب میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھولی گئی - اس المیے کو اکیس سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود ابھی تک سربرنیتسا قتل عام کی بھینٹ چڑھنے والے تمام افراد کی لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے ، اس المیے کے بہت سے پہلو اب بھی معلوم نہیں ہو سکے ہیں اور بوسنیا کے عوام کے دلوں میں اس جنگ کا غم آج تک باقی ہے-

 

ٹیگس