گیارہ ستمبر کے بارے میں امریکی کانگریس کی رپورٹ
امریکی کانگریس نے چودہ برسوں کے بعد گیارہ ستمبر دوہزار ایک کے دہشتگردانہ واقعات میں سعودی عرب کے شہریوں کے ملوث ہونے کےبارے میں اٹھائیس صفحے کی رپورٹ شائع کردی ہے۔
یہ اٹھائیس صفحے آٹھ سو اڑتیس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کا حصہ ہیں جو برسوں تک خفیہ رکھی گئی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ اس اٹھائیس صفحے کی رپورٹ میں آیا ہے کہ سعودی عرب کے شہریوں نے گیارہ سمتبر دوہزار ایک کے دہشتگردانہ حملوں کا منصوبہ بنایا تھا اور اس کے لئے مالی حمایت کی تھی۔ اگرچہ کئی برسوں تک انتظار کرنے کے بعد آخر کار امریکی کانگریس نے گیارہ ستمبر کے دہشتگردانہ واقعات میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے مسئلے کو واضح کرنے کےلئے رائے عامہ کے دباؤ میں مکمل رپورٹ سے اٹھائیس صفحات پر مشتمل حصہ بھی شائع کیا ہے جو نائن الیون میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے بارے میں ہے۔ البتہ قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس رپورٹ میں جیسا کہ پہلے سے توقع کی جارہی تھی گیارہ ستمبر کے واقعات میں ملوث افراد کے حق میں سعودی عرب کی حکومت کے کردار کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے نشر ہونے کے بعد گیارہ ستمبر کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کے اھل خانہ کو بھی افسوس ہوا کیونکہ انہیں امید تھی کہ اس میں گیارہ ستمبر کے واقعات میں حکومت سعودی عرب کے کردار پر مکمل طرح سے روشنی ڈالی جائے گی۔ اب تک یہ تصور کیا جارہا تھا کہ اس متنازعہ رپورٹ کے شائع کئے جانے کے بعد گیارہ ستمبر کے دہشتگردانہ واقعات میں ہلاک ہونے والوں کے افراد خانہ اور رشتہ دار سعودی عرب کے خلاف مقدمہ دائر کرکے تاوان وصول کرنے کی درخواست کرسکتے ہیں۔
ادھر ریپبلیکن پارٹی کے سینئر رکن پارلیمنٹ ایڈم شیف نے دعوی کیا ہے کہ یہ دستاویز ثابت نہیں کرتی کہ سعودی عرب کی حکومت گیارہ ستمبر کے واقعات میں ملوث ہے۔ ہرچند کہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات میں استعمال ہونے والے طیاروں کے انیس اغوا کاروں میں پندرہ کا تعلق سعودی عرب سے تھا اور وہ سعودی شہری تھے۔ امریکہ کے اس سنیٹر کے مطابق سعودی عرب کے حکام نے اٹھائیس صفحے کی اس رپورٹ کے شائع کئےجانے کا خیرمقدم کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس رپورٹ کے سامنے آنے سے انہیں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دینے کا موقع ملے گا۔
یہ امریکی سنیٹر ایسے عالم میں یہ دعوی کررہا ہے کہ سعودی عرب نے اٹھائیس صفحات پر مشتمل رپورٹ کا خیرمقدم کیا ہے ۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ یہ رپورٹ چودہ برسوں تک صیغہ راز میں رکھی گئی تھی اور سعودی عرب نے امریکہ کو دھمکی دی تھی کہ اگر یہ رپورٹ شائع کی گئی تو وہ سات سو ارب ڈالر جو کہ تیل کی فروخت سے اس نے امریکہ میں لگا رکھے ہیں واپس نکال لے گا۔ امریکہ کے بعض ذرائع کا کہنا ہےکہ سعودی عرب کی وارننگ کے بعد اس رپورٹ میں جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت نے دہشتگردوں کی مدد کی ہے اسے بدل دیا گیا۔ اگرچہ سعودی عرب دوہزار ایک میں نیویارک میں عالمی تجارتی مرکز کی جڑواں عمارتوں اور پنٹاگون کی عمارت پر حملے میں ملوث ہونے کا انکار کرتا رہا ہے لیکن نائن الیون میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے بارے میں اجمالی طورپر خفیہ رپورٹ کے شائع کئےجانے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کومشرق وسطی میں ایک اسٹراٹیجیک اتحادی قراردئےجانے کے باوجود بھی ریاض نے گیارہ ستمبر کے واقعات میں عملی طور سے ان واقعات میں ملوث افراد کی طرح طرح سے مدد کرکے امریکہ کو نقصان پہنچایا ہے۔
فطری طور پر ایسے حالات میں امریکہ کی رائے عامہ سعودی عرب کے ساتھ اپنی حکومت کے تعلقات پر نظر ثانی کی خواہاں ہے اور دوسری طرف سے سعودی عرب کی حکومت کے ساتھ قانونی طور پر پیش آنے کا مسئلہ سامنے آیا ہے اس کے علاوہ رواں برس مئی کے مہینے میں سینیٹ نے یہ قانون پاس کیا تھا کہ گیارہ ستمبر کے دہشتگردانہ واقعات میں ہلاک ہونے والوں کے اھل خانہ سعودی عرب سے تاوان وصول کرسکتے ہیں۔ اس مسئلے پر سعودی عرب نے شدید اعتراض کیا تھا اور اسی جیسے اقدامات کرنے کی دھمکی دی تھی البتہ اس سے پہلے بھی دھمکی دے چکا تھا کہ اگر یہ قانون منظور ہوجاتا ہے تو سعودی عرب امریکہ میں اپنے اثاثے منجملہ بانڈز بیک وقت فروخت کردے گا اگر سعودی عرب کی یہ دھمکی عملی شکل اختیار کرلیتی تو امریکی معیشت کو اچانک شدید جھٹکا لگتا۔
ان تمام مسائل کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت اور کانگریس بظاہر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اٹھائیس صفحے کی رپورٹ میں بعض چیزوں کو تبدیل کرکے اور بعض چیزیں نکال کر اپنی رائےعامہ اور گیارہ ستمبر کے واقعات میں متاثر ہونے والوں کو راضی کرلیں اور سعودی عرب کو منفی رد عمل دکھانے سے بھی دور رکھیں تا کہ اس طرح سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی طرح کی کشیدگی نہ آنے پائے