اسلامی ملکوں کے درمیان حج ڈپلومیسی کی تقویت
ایران کے حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین سید علی قاضی عسگر نے تمام اسلامی ملکوں، خاص طور سے اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے درمیان حج ڈپلومیسی کی تقویت اور اس عمل کو جاری رکھے جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔
انھوں نے اپنے دورہ پاکستان میں بدھ کے روز اس ملک کے مذہبی امور کے وزیر سردار محمد یوسف سے ملاقات میں کہا کہ سعودی عرب میں گذشتہ سال ایام حج کے دوران پیش آنے والے ناگوار واقعات کے پیش نظر تمام ملکوں کے درمیان اس تعلق سے تعاون و ہم آہنگی اور تجربات کے تبادلے کا، ماضی سے کہیں زیادہ احساس کیا جا رہا ہے۔
حجت الاسلام و المسلمین سید علی قاضی عسگر نے ایران، عراق اور شام کی زیارت کے لئے پاکستانی زائرین اور عام شہریوں کے سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سفر میں سہولت فراہم کرنے کے مقصد سے دو اسلامی اور پڑوسی ملکوں کی حیثیت سے ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون کو فروغ دیئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی۔
ایران کے حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے نے اسلامو فوبیا کی طرف بھی اشارہ کیا اور اس سلسلے میں بعض ملکوں اور حکومتوں کی منفی کوششوں اور زہریلے پروپیگنڈے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس قسم کی پروپیگنڈہ مہم کا مقابلہ کئے جانے کے طریقوں کے بارے میں گفتگو کی۔
اس ملاقات میں پاکستان کے مذہبی امور کے وزیر نے بھی ایران اور پاکستان کے تعلقات کو بہت زیادہ خوشگوار قرار دیا اور کہا کہ فریضہ حج، مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مکمل مظہر ہے اور پاکستان، اس اتحاد کو فروغ دینے کے لئے ایران کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کی توسیع کے لئے آمادہ ہے۔
ایران کے حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین سید علی قاضی عسگر نے اسی طرح پاکستان کی مختلف جماعتوں اور گروہوں سے متعلق مختلف سیاسی و مذہبی شخصیات کے ساتھ ایک نشست میں بھی کہا کہ ایرانی حکام اور عوام، ہمیشہ ایران و پاکستان کے درمیان تعلقات کی تقویت کے خواہاں رہے ہیں اور وہ ان تعلقات کے فروغ پر زور دیتے رہے ہیں۔ انھوں نے مسئلہ حج اور ایران و سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تہران، ایران اور سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو مذاکرات کے ذریعے ختم کئے جانے کا خواہاں تھا مگر سعودی عرب نے ایران کی اس کوشش کا مثبت جواب نہیں دیا۔
حجت الاسلام و المسلمین سید علی قاضی عسگر نے کہا کہ گذشتہ سال حج تمتع کے موقع پر پیش آنے والے مسائل کے پیش نظر سعودی حکام نے اس سال سیاسی وجوہات کی بناء پر ایرانی زائرین کو سرزمین وحی کا سفر کرنے سے محروم کر دیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال حج تمتع کے موقع پر ناقص انتظامات اورسعودی حکام کی نااہلی کے نتیجے میں رونما ہونے والے سانحے میں ہزاروں کی تعداد میں حجاج کرام اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جن میں چار سو اکسٹھ ایرانی حجاج کرام بھی شامل ہیں۔ منی اور مکہ کے المیے میں ہزاروں کی تعداد میں حجاج کرام کی شہادت کے واقعے کو تقریبا ایک سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود سعودی حکام نے وعدے کرنے کے باوجود اسلامی ملکوں کو اس سلسلے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ یہاں تک کہ وہ بیت اللہ الحرام کے زائرین کی جان و مال کو تحفظ فراہم کئے جانے کے بارے میں کوئی قانونی، بین الاقوامی اور اسلامی ذمہ داری بھی قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ منی کے واقعے کے بعد سعودی حکومت نے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ اس المیے کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کرے گی اور طے پایا تھا کہ یہ کمیٹی اس واقعے کا جائزہ لے گی اور اسلامی ملکوں کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اندرون ملک ذمہ داریوں اور بین الاقوامی و اسلامی قوانین کی رو سے سعودی عرب کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ منی کے المیے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی دیت اور تاوان ادا کرے۔