آئی اے ای اے سے ایران کا احتجاج
اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی ایٹمی معلومات لیک ہونے پرآئی اےای اے کو باقاعدہ احتجاجی مراسلہ بھیجا ہے۔
یہ مراسلہ آج ویانا میں آئی اے ای اے میں ایران کے نمائندے پیش کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی ادارے کے ترجمان بہروز کمالوندی نے اتوار کو آئی آر آئی بی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ دنوں قبل ایسوشی ایٹڈ پریس نے بعض مطالب شائع کئے تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایران کے طویل مدت ایٹمی پروگرام سے متعلق ہیں۔ ایران نے یہ دستاویزات ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کو سونپے تھے۔
بہروز کمالوندی نے کہا کہ البتہ مکمل دستاویز لیک نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے کچھ حصے لیک ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس مسئلے میں چند نکات قابل غور ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ آئی اے ای اے کے پاس موجود مختلف ملکوں کی خفیہ معلومات کی حفاظت کی جانا ضروری ہے۔ ملکوں کو توقع ہے کہ ان کی معلومات کی بخوبی حفاظت کی جائے گی۔
بہروز کمالوندی نے کہا کہ البتہ مختلف دستاویزات کے ہمراہ یہ دستاویز بھی جو آئی اے ای اے کو دی گئی تھی ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستاویزات کا لیک ہونا محض ایران سے متعلق نہیں ہے بلکہ دیگر رکن ممالک بھی اس میں شریک ہیں۔
بہروزکمالوندی نے اس مسئلے پر تجزیہ کرتے ہوئے ایک اور نکتے کی طرف اشارہ کیا اورکہا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان یعنی ایٹمی معاہدے میں امریکہ اور یورپی ملکوں کو گھاٹا ہوا ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ ایسے ثبوت و شواہد لانے کی کوشش کرنے لگے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان پرعمل درآمد کے دس سال بعد ایران کی توانائیاں بڑھ جائیں گی اور پندرہ سال بعد عملی طور سے صنعتی لیول پر پہنج جائیں گی۔
اس فرض کو تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہےکہ ایران کی توانائیوں میں اضافہ ہونا غیرمتوقع یا غیرمعمولی نہیں ہے کیونکہ شروع ہی سے یہ طے پایا تھا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام طویل مدت میں صنعتی سطح پر پہنچ جائے گا اور یہ ایٹمی معاہدے میں بھی آیا ہے لھذا اس دستاویز کا سامنے آنا ایران کے لئے فخر کی بات ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر کس طرح سے عمل کیا جا رہا ہے۔
کمالوندی نے کہا کہ اس کے باوجود یہ دستاویزچونکہ خفیہ دستاویز ہے اس کا انکشاف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر خفیہ دستاویزات کے انکشاف کا سلسلہ چل پڑے تو دوسری خفیہ دستاویزات بھی ہیں جن کا سامنے آنا تکنیکی اور سکیورٹی کے لحاظ سے ہرگز صحیح نہیں ہے اور اس سلسلے پرپابندی لگانی ہوگی۔ قانون یہ ہے کہ دستاویزات کو خفیہ رکھا جانا چاہیے۔ عالمی اداروں میں ملکوں کے خفیہ دستاویزات کی حفاظت ہونی چاہیے۔ آئی اے ای اے کی یہ کمزوری پہلے بھی دیکھی گئی ہے اور اب بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آئندہ بھی کوئی خفیہ دستاویز نشر نہیں کی جائے گی۔
ایک سال قبل مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کے ساتھ ساتھ ایران کے ایٹمی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی اور آئی اے ای اے کے ڈائرکٹر جنرل یوکیا آمانو نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا جس میں آئی اے ای اے کے پاس موجود خفیہ دستاویزات کی حفاظت پر تاکیدکی گئی تھی۔
بہر صورت آئی اے ای اے کے منشور میں اس کی ذمہ داریاں معین کی گئی ہیں اور دستاویزات کو خفیہ رکھنے کے لئے مختلف ملکوں سے جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق آئی اے ای اے پرلازم ہے کہ وہ مختلف ملکوں کی خفیہ دستاویزات کی حفاظت کرے۔ اس طرح سے معلوم ہوتا ہےکہ آئی اے ای اے کا بھی دائرہ کار معین ہے جس کے حدود میں اسے کام کرنا پڑتا ہے۔
جو بات اس وقت تشویش کا سبب ہے خفیہ معلومات تک ماہرین کی رسائی کا طریقہ کار ہے، ان میں ایسے بھی ماہرین ہوسکتے ہیں جن کا خفیہ مسائل سے کوئی تعلق نہ ہو لھذا اس طریقہ کار پر نظر ثانی کرنےکی ضرورت ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران آئی اے ای اے کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے توقع رکھتا ہے کہ آئی اے ای اے ایران کی خفیہ معلومات کی حفاظت میں پوری کوشش کرے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آئی اے ای اے کے ساتھ رکن ملکوں کا تعاون شک و تردید کے ساتھ انجام پائے گا، یہ ایسی بات ہے کہ اگر اس کا سد باب کرنے کے لئے مناسب اقدام نہ کئے گئے اور اس کی تکرار نہ روکی گئی تو آئی اے ای اے کے ارکان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی لھذا اس سلسلے میں ایران کا حساسیت کا مظاہرہ کرنا اور مسئلے کا جائزہ لینا ایجنسی اور اسکے تمام اراکین کے حق میں ہے۔