عراقی پارلیمنٹ کی تاریخی ذمہ داری؛ کالعدم بعث پارٹی کے لگائے گئے باقی ماندہ زخموں پر مرہم
عراقی پارلیمنٹ کے ارکان نے کالعدم بعث پارٹی کی رکنیت پر پابندی اور اسے جرم سمجھے جانے کے قانون کی منظوری دے دی۔
یہ قانون ہفتے کے روزعراقی پارلیمنٹ نے منظور کیا اور اس کے مطابق عراق کے اقتدار میں کالعدم بعث پارٹی کی کسی بھی عنوان سے واپسی اور اس کی سیاسی و جماعتی سرگرمیوں کو ممنوع اور جرم قرار دیا گیا ہے۔
اس سے قبل بھی تقریبا ڈیڑھ سال پہلےعراقی کابینہ نے بعث پارٹی کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے اوراس کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری دی تھی۔ عراقی حکومت کے اس فیصلے کے مطابق کالعدم بعث پارٹی کی سیاسی ڈھانچے اور دیگر مراکز میں ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
عراقی پارلیمنٹ کا یہ اقدام ایک قسم کا حکومتی اقدام کا تسلسل ہے، اس لیے کہ پارلیمنٹ میں کالعدم بعث پارٹی کی رکنیت پر پابندی کے قانون کی منظوری سے یہ قومی فیصلہ اب قانون میں تبدیل ہو گیا ہے۔
جو چیز بھی پارلیمنٹ میں پاس ہو اور قانون میں بدل جائے تو وہ جماعتوں سے ماورا ہو جاتی ہے اور وہ پارلیمنٹ، حکومت اور کسی خاص گروہ کے ساتھ مختص نہیں ہوتی ہے اور ہرزمانے میں اس کی خلاف ورزی جرم شمار ہوتی ہے مگر یہ کہ یہ قانون ایک بار پھر قانونی راستے طے کرتا ہوا منسوخ ہو جائے۔
ہفتے کے روزعراقی پارلیمنٹ میں جو کچھ دیکھا گیا وہ پارلیمنٹ کی تاریخی اور قومی ذمہ داری کا مظاہرہ تھا۔ اس لیے کہ اولا عراقی عوام کی خواہش پرعمل ہوا۔ ثانیا یہ کہ قومی اور تاریخی مسئلے میں حکومت اور پارلیمنٹ کا تعمیری تعاون کھل کر سامنے آیا۔ حکومت اور پارلیمنٹ کا تعاون سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی مسائل کے حل کی بنیاد ہے۔
کالعدم بعث پارٹی عراقی عوام کو صدام کے دور کے جرائم اور دو ہزار تین سے عوام کا قتل عام کرنے میں دہشت گرد گروہ داعش کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ سے عراقیوں کے ساتھ غداری کی یاد دلاتی ہے۔
صدام حکومت کا دورجرم و جارحیت سے بھرا پڑا تھا۔ صدام نے انیس سو اناسی سے لے کر دو ہزار تین تک بعث پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے عراق کی مختلف قوموں کے ساتھ انتہائی سخت پالیسی روا رکھی۔ انھیں کچلنا، قتل عام کرنا اور زبردستی بےگھر کر دینا صدام کی بعثی حکومت کے دور میں بعث پارٹی کی نسلی پالیسی کا ایک حصہ تھا۔
بعث پارٹی کے جرائم کی انتہا، انیس سو اٹھاسی اور نواسی میں صدام کے حکم پرعراقی کردوں کا قتل عام ہے کہ جو انفال آپریشن کے دوران کیا گیا۔ صدام کی چوبیس سالہ حکومت کی تاریخ انفال آپریشن جیسے جرائم سے بھری پڑی ہے۔ صدام کی بعثی حکومت کی مخالفین کو سیاسی سیکورٹی اور فوجی لحاظ سے کچلنے کی پالیسی عراق کی تاریخ میں واضح مصداق رکھتی ہے اور اس حکومت کے خاتمے کے باوجود بدستور ماضی کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں اور کالعدم بعث پارٹی کے نئے اقدامات عراقی عوام کو آزردہ اور رنجیدہ کر دیتے ہیں۔
تقریبا دو سال قبل دس جون دو ہزار چودہ کو بعث پارٹی اور داعش کے مشترکہ تعاون سے عراق کے صوبہ نینوا کا مرکزی شہرموصل سقوط کر گیا۔ یہ تعاون اور داعشی و بعثی جرائم صدام کی جلاد حکومت کے دور کی یاد دلاتے ہیں۔
کالعدم بعث پارٹی کے اعلی عہدیدار داعش کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور حتی عراق کے اندر میدان جنگ میں داعشی کمانڈر، بعثی ہیں۔ صدام کا اس وقت کا نائب ابراہیم عزت الدوری داعش کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے۔ ان جلادوں کے تعاون کا مقصد صدام کے جرائم کے باقی ماندہ زخموں کو ایک بار پھر ہرا کرنا ہے۔ عراق میں داعش وہی کام کر رہا ہے جو صدام نے اپنے دورحکومت میں انجام دیا۔
بعث پارٹی اور داعش ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اس لیے کہ دونوں ہی عراق میں قتل و غارتگری کر رہے ہیں کہ جو ایک جیسے طریقے اور وسائل استعمال کرتے ہیں۔ صدام کے کارندوں کے ہاتھوں عراقی لوگوں کے جسموں کے بعض اعضا کاٹنے کے عمل کو داعش نے زیادہ کامل کر دیا ہے اور داعش کے جلاد بےگناہ عراقیوں کے سروں کو چاہے وہ کسی بھی قوم و نسل سے تعلق رکھتے ہوں مجمع عام میں کیمروں کے سامنے تن سے جدا کرتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب داعش کے دہشت گرد کالعدم بعث پارٹی کے ساتھ تعاون کرکے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں، عراقی پارلیمنٹ کی جانب سے کالعدم بعث پارٹی کی رکنیت کو ممنوع اورجرم قراردینا ایک تاریخی اور قومی ذمہ داری پرعمل درآمد ہے اور یہ داعش اوراس کے حامیوں پرایک کاری ضرب ہے۔