Nov ۱۸, ۲۰۱۶ ۱۸:۰۵ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف امریکی ایوان نمائندگان کا نیا اقدام

امریکی ممبران پارلیمنٹ نے ایک ایسے قانون کو منظوری دی ہے جس کی بنیاد پر اس ملک کی حکومت، ایران کو تجارتی طیارے بیچنے کا سودا نہیں کرسکتی-

 اس قانون کے مطابق اوباما حکومت کی جانب سے ایران کو تجارتی طیاروں کی فروخت کے حوالے سے دی جانے والی اجازت اور اس سلسلے میں ہونے والے معاہدے منسوخ ہوجائیں گے-

امریکی ممبران پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں ایک قرارداد پیش کی جس کے حق میں دوسوتینتالیس اور مخالفت میں ایک سو چوہتر ووٹ پڑے - امریکی ممبران پارلیمنٹ کے اس اقدام کو گذشتہ ستمبر میں امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے ایئربس اور بوئینگ کمپنیوں کو تہران کو طیارے بیچنے کی اجازت کی مخالفت سمجھا جا رہا ہے-

امریکی ممبران پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو امریکی سینٹروں کی بھی حمایت درکار ہے- امید ہے کہ سینٹ میں موجود ڈیموکریٹ سینٹر اس قرارداد کی سختی سے مخالفت کریں گےاور تقریبا پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جب یہ بل صدرباراک اوباما کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ اسے ویٹو کردیں گے-

امریکی ایوان نمائندگان کے اس اقدام کو امریکی کانگریس کے ایران مخالف اور انسانیت مخالف اقدامات کی ایک دوسری مثال قرار دیا جاسکتا ہے، خاصطور پر ایسے میں جبکہ ایران کے مسافر بردار طیارے پرانے ہوچکے ہیں اور مسافروں کی جانوں کی حفاظت کی خاطر ان کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔

اس وقت ایران کو پابندیوں کے برسوں کے بعد اپنی سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے جدید ترین مسافر بردار طیاروں  کی ضرورت ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کا یہ اقدام امریکہ نے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ان نئے منصوبوں کے دائرے میں ہے کہ جس میں انہوں نے مشترکہ ایکشن پلان پر نظر ثانی اور ایران کے خلاف مزید دباؤ بڑھانے کی بات کی تھی۔ منگل کے دن بھی امریکی ایوان نمائندگان نے اپنے ایران مخالف رحجان کے دائرے میں ایران کے خلاف پابندیوں میں مزید دس سال کی توثیق کی قرارداد کو  چار سو انیس ووٹ  سے منظور کرلیا، امریکی حکومت نے جنوری میں ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد شروع ہو جانے کے بعد بھی اس کی پابندی نہیں کی ہے - ڈیموٹو قانون کے نام سے مشہور یہ قانون پہلی بار سن انیس سو چھیانوے میں امریکی کانگریس میں منظورہوا تھا اور تب سے کئی بار اس کی مدت میں توسیع کی جا چکی ہے-

در حقیقت آٹھ نومبر کو امریکی صدارتی انتخابات میں ریپبلیکن کی کامیابی اور اسی طرح امریکی کانگریس میں ان کی اکثریت اور امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اس پارٹی کے گورنروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، یہ توقع کی جارہی تھی کہ ریپبلیکن اسی طرح جیسے انہوں نے کہا تھا، مشترکہ ایکشن پلان میں باراک اوباما حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے سے روکنے کے لئے اقدامات انجام دیں گے اور ریپبلیکن پارٹی نے ایران مخالف اپنی پالیسیوں کا آغاز کردیا ہے۔

اس وقت ریپبلیکن پارٹی اپنے انتخابی وعدوں پر عمل درآمد کے درپے ہیں، جبکہ یہ ایسے میں ہے کہ امریکیوں کی ایران مخالف پالیسیوں کی ، اس کے یورپی اتحادیوں نے مخالفت کی ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ امور کی انچارج فیڈریکاموگرینی نے کہا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان ایران اور امریکہ کے درمیان ایک سمجھوتہ نہیں ہے بلکہ یہ معاہدہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان طے پایا ہے اور امریکہ گروپ پانج جمع ایک کا جز ہے اور یہ سمجھوتہ تمام قانونی تقاضوں کے مطابق ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر دو ہزار اکتیس  اسی حوالے سے منظور کی گئی ہے۔

دراین اثناء گروپ پانچ حمع ایک کے دیگر ارکان یعنی روس اور چین بھی امریکہ کی ریپبلیکن پارٹی کے اس رویّے کے مخالف ہیں۔

ایران کے خلاف پابندیوں کی منسوخی کی مخالفت اور مشترکہ جامع ایکشن پلان کے حوالے سے امریکی کانگریس کا غیر منطقی موقف، خاصطور پر اس لحاظ سے قابل اہمیت ہے کہ اسلامی جمہوری ایران نے واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں کے اعتراف کے مطابق مشترکہ جامع ایکشن پلان کی تمام شقوں پر مکمل طور پر عمل کیا ہے، لہذا اب امریکیوں کے پاس ایسا کوئی بہانہ نہیں کہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے کسی پسو پیش سے کام لیں۔

بہر حال امریکہ کا ماضی اس قسم کی باتوں سے بھرا ہوا ہے اور دیگر ملکوں کے ساتھ وعدہ خلافی واشنگٹن کی سرشت میں شامل ہے ۔

ٹیگس