سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کے حقوق کی پامالی
سعودی عرب کے معروف عالم دین شہید الشیخ نمر باقر النمر کی پہلی برسی کے موقع پر اس ملک کے شیعہ مسلمانوں نے مشرقی سعودی عرب میں واقع العوامیہ میں ان کی امنگوں سے تجدید عہد کرتے ہوئے سعودی شیعہ مسلمانوں کے سلسلے میں آل سعود حکومت کی تفریق آمیز پالیسیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
مشرقی سعودی عرب کے علاقے العوامیہ کے مظلوم عوام نے، جن کے ہاتھوں میں سعودی عرب کے مجاہد عالم دین شیخ باقر النمر کی تصاویر موجود تھیں، آل سعود کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے اور سعودی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان شہداء کے جنازوں کو ان کے اہل خانہ و لواحقین کے حوالے کریں کہ جن کو اب تک ان کے سپرد کئے جانے سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔
سعودی عرب کی آل سعود حکومت، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی میزبانی اور اسی طرح تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی ڈالر کی آمدنی کی بنیاد پر پورے عالم اسلام خاص طور سے دنیائے عرب کی قیادت کی دعویدار بنی ہوئی ہے اور اس دعوے کے باوجود آل سعود حکومت، سارے عالم اسلام خاص طور سے دنیائے عرب میں تشدد و بدامنی اور تفرقہ پیدا کرنے کا عامل بنی ہوئی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ خود سعودی رائے عامہ میں بھی آل سعود کو مکمل طور پر ناپسند کیا جاتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آل سعود، اپنے وہابی افکار و تعلیمات کی بنیاد پر لوگوں کے شہری و انسانی حقوق اور جمہوریت پر ہرگز کوئی یقین نہیں رکھتی اور وہ، ایک ایسی حکومت ہے جو دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کرتی ہے۔ اسی وجہ سے برطانوی اخبار ڈیلی میل نے سنہ دو ہزار سترہ کے لئے اپنی پیش گوئیوں میں لکھا ہے کہ ایک نمایاں پیش گوئی، سعودی عرب میں بغاوت و کودتا ہونا ہے، کئی عشروں تک سعودی شہریوں کی سرکوبی، حکمرانوں کی مالی بدعنوانی اور قومی خزانے کا بے تحاشہ ذاتی استعمال، یہ سب مسائل اس بات کا باعث بنیں گے کہ سعودی عرب سے آل سعود کو نکال باہر کر دیا جائے گا۔
انسانی حقوق کے ایک عرب مرکز نے بھی سعودی عرب کو آمریت کا مرکز قرار دیا ہے۔ اگرچہ سعودی عرب میں تمام مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے تاہم اس ملک کے شیعہ مسلمانوں کو فرقہ واریت کی بناء پر اور زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے شیعہ مسلمان نہ صرف آل سعود کی تفریق آمیز پالیسیوں کا شکار ہیں بلکہ وہ اپنے ابتدائی ترین اور بنیادی ترین حقوق سے بھی محروم ہیں۔
فرانسیسی ماہر فرانسوا ہیمز کے مطابق، جو کچھ تیونس، مصر اور لیبیاء میں ہوا ہے سعودی عرب میں بھی ہو گا، اس ملک میں پندرہ فیصد تک آبادی، شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور وہ اس ملک کے ایسے علاقے میں آباد ہیں جو اقتصادی نقطہ نظر سے تیل سے مالا مال ہیں اور زرخیز بھی ہیں مگر پھر بھی اس ملک کے سب سے زیادہ غریب عوام ہیں اور ان کے حقوق کو بھرپور طریقے سے پامال کیا جا رہا ہے اور سعودی شیعہ مسلمانوں کی سرکوبی میں مغرب بھی اس ملک کی آل سعود حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے۔
ایسی حالت میں کہ شیعہ مسلمان بھی سعودی عرب کی مقامی آبادی کا حصہ ہیں مگر اس ملک کے وہابی تکفیری مفتی، صرف شیعہ ہونے کی بناء پر ان کے مرتد ہونے کا فتوی جاری کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ قطیف کے علاقے میں شیعہ مسلمانوں کا پورا ایک تاریخی ماضی ہے، آل سعود حکومت انھیں مذہبی رسومات تک ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ سعودی عرب کے حکومتی ڈھانچے میں اس ملک کے شیعہ مسلمانوں کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ آل سعود، سعودی عرب کے شیعہ رہنماؤں کو اپنے اقتدار کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتی ہے اور وہ نہ صرف ان شیعہ رہنماؤں کی سرگرمیوں کو مکمل کنٹرول کرتی ہے بلکہ مختلف طریقوں سے انھیں شدید ایذائیں بھی پہنچاتی ہے۔ سعودی عرب میں آل سعود حکومت کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں کا مقابلہ کئے جانے کے بارے میں اخبار گارڈین نے لکھا ہے کہ شیخ نمر باقر النمر، سعودی عرب کے ایک ایسے شیعہ رہنما تھے کہ جنھیں جولائی دو ہزار بارہ میں سعودی عرب کی قومی سلامتی اور حکومت کے خلاف اقدام جیسے بے بنیاد الزام کے تحت گرفتار کیا گیا اور پھر پندرہ اکتوبر دو ہزار پندرہ کو آل سعود کی عدالت کی جانب سے انھیں، ان ہی الزامات کے تحت تلوار سے ان کا سر قلم کئے جانے اور ان کی لاش کو ملاء عام لٹکائے جانے کا حکم سنایا گیا۔ یہاں تک کہ دو جنوری دو ہزار سولہ کو انھیں، سرکاری دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہولناک طریقے سے سزائے موت دے دی گئی۔
حزب اللہ لبنان کے نائب سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے دارالحکومت بیروت میں شہید شیخ باقر النمر کی پہلی برسی کی مناسبت سے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت سعودی عرب، علاقے کا ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے شام کو تباہ کیا اور عراق کا امن و سکون غارت کر دیا۔ انھوں نے شیخ باقر النمر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید شیخ باقر النمر ایک ایسی شخصیت تھی جو حق پر ڈٹی رہی اور دشمنوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرتی رہی اور ظلم و ستم کے سامنے بھی کبھی نہیں جھکی اور انھوں نے راہ حق میں جام شہادت نوش کیا۔