ماسکو کے سہ فریقی سمجھوتے کے تعلق سے ایران کو ترکی سے توقعات
اسلامی جمہوریہ ایران نے ماسکو کے سہ فریقی سمجھوتے کے شریک کی حیثیت سے شام کے بارے میں ہونے والے سمجھوتے پر ٹھوس طریقے سےعملدرآمد پر تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ترک حکام سے یہ توقع ہے کہ وہ اس سمجھوتے کے ایک فریق کی حیثیت سے ایسا موقف اختیار نہیں کرے گا جو اس ملک کے موجودہ حقائق اور وعدوں کے منافی ہو-
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا کہ اگر ترکی، شام میں پائیدار جنگ بندی اور اس ملک میں قیام امن کے لئے سیاسی بات چیت کا راستہ ہموار کئے جانے میں مخلص ہے تو اس کو چاہئے کہ جنـگ بندی کی خلاف ورزی کر نے والے مسلح گروہوں کے خلاف کاروائی کرے-
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان ترک وزیرخارجہ مولود چاؤش اوغلو کے اس بیان کے بعد آیا ہے جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ شام کی حکومت کے مخالف مسلح گروہ، جنگ بندی پر عمل کر رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ شامی حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ بھی جنگ بندی کی پابندی کرے- واضح رہے کہ شام میں ، جمعہ تیس دسمبر سے جنگ بندی جاری ہے لیکن پچھلے چند روز کے دوران دہشت گردوں کے ذریعے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کی گئی ہے- جبکہ ماسکو سمجھوتے کے فریقوں نے اس بات کی ذمہ داری قبول کی ہے کہ وہ متحارب فریقوں کو جنگ بندی کا پابند بنائیں گے اور ترکی نے مخالف مسلح گروہوں کے ذریعے جنگ بندی پر عمل کرانے کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن ترکی کے وزیرخارجہ کے تازہ بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکی، ماسکو سمجھوتے پر عمل کرنے سے فرار کر رہا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ شام میں جنگ بندی کے قیام کے لئے ہونے والے سمجھوتے اور بیان سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ علاقے میں سیاسی اور فوجی رسہ کشی کو باہمی مفاہمت کے ایک موقع میں تبدیل کیا جاسکتا ہے-
اس وقت ترکی کے سامنے دو راستے ہیں اول تو یہ کہ وہ ماسکو سمجھوتے کے دائرے میں اپنے وعدوں پر عمل کرے اور اس کی پابندی کرے اور اپنی ماضی کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور یا پھر ممکن ہے کہ صدر رجب طیب اردوغان یہ کوشش کریں کہ شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں ہونے والے آستانہ مذاکرات اور ماسکو سمجھوتے کو اس کے راستے سے منحرف کردیں- چنانچہ سعودی عرب کے دباؤ میں آکر ترکی اگر اپنا یہ رویہ جاری رکھتا ہے تو اس صورت میں حالات مزید پیچیدہ ہوجائیں گے اور روس کے ساتھ ترکی کے تعلقات بھی مزید متاثر ہوں گے اور ماضی کی طرح ان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے- اور اس طرح کی صورتحال ، ترکی کے موجودہ حالات اور اس ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ اقدامات کے پیش نظر حکمراں پارٹی کے حق میں نہیں ہوگی-
آستانہ کے سربراہی اجلاس سے قبل اردوغان کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ایک بار پھر شام کے معاملات میں شامل کرنے کی کوشش میں ہیں- اردوغان نے اٹھائیس دسمبر کو کہا تھا کہ قطر اور سعودی عرب کو یعنی شام میں اس کے پہلے کے اتحادیوں کو بھی اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہئے -
اردغان کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کے وزیر دفاع حسین دہقان نے کہا تھا کہ سعودی عرب کو شام کے بحران کے حل میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے - انہوں نے کہا تھا کہ ترکی کے نئے اتحاد کے باوجود شامی حکومت کی اجازت کے بغیر اس ملک میں ترکی کی فوجی مداخلت، شام کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی ہو گی-
حقیقت میں جیسا کہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ترک وزیرخارجہ مولود چاووش اوغلو کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک حکام کے غیر تعمیری بیانات سے صرف صورت حال مزید پیچیدہ ہو گی اور شام کے بحران کے سیاسی حل کی راہ میں مشکلات میں بھی اضافہ ہو گا-