عرب ممالک صیہونی حکومت کے ذریعے امریکہ کی قربت کے خواہاں
صیہونی حکومت کے نائب وزیر تعاون ایوب قرا نے کہا ہے کہ آل خلیفہ کے حکام سے اسرائیل کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ایوب قرا نے اخبار ھآرتص سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہوں نے خاخاموں کے دورہ بحرین میں اہم کردار ادا کیا ہے
انہوں نے کہا کہ خاخاموں کے وفد نے آل خلیفہ کے بعض حکام سے ملاقات کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل خلیج فارس کے تمام ملکوں منجملہ بحرین کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحرینیوں نے ایک یہودی کو امریکہ میں اپنا سفیر معین کیا ہے۔ یاد رہے بحرین میں صرف سینتیس یہودی بستے ہیں۔ اس صیہونی عھدیدار نے کہا کہ ابوظبی میں ہمارا دفتر ہے اور مراکش کے ساتھ ہمارے نہایت دوستانہ تعلقات ہیں اور خلیج فارس کے تقریبا تمام عرب ملکوں سے ہمارے تعلقات ہیں۔
آل خلیفہ کی حکومت کئی برسوں سے اپنے عوام کے مطالبات کے برخلاف عمل کررہی ہے اور اس کے ان اقدامات میں تیزی بھی آئی ہے۔ اس نے بحرین کے مفادات کو نظر انداز کرکےامریکہ اور برطانیہ کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ امریکہ نے کچھ دنوں قبل خبردی تھی کہ وہ منامہ کے مشرق میں سلمان بحری بیس میں جہاں امریکہ کی بحریہ کا پانچواں بیڑا تعینات ہے کچھ تنصیبات تعمیر کرنا چاہتا ہے یہ ایسے عالم میں ہے کہ بحرین سمیت عرب ملکوں میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے خلاف نفرت کے جذبات میں بالخصوص اسلامی بیداری کے شروع ہونے کے بعد شدید اضافہ ہوا ہے اور ان ہی جذبات کے تحت عوام اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔
آل خلیفہ کے وزیر خارجہ نے چند دنوں قبل صیہونی حکومت کے سابق صدر شیمون پرزکی موت پر تعزیتی پیغام دیتے ہوئے اپنے غم و اندوہ کا اظہار کیا تھا۔ یاد رہے دیگر صیہونی حکام کی طرح شیمون پرز کے ہاتھ بھی بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے اور انہوں نے بھی فلسطینیوں پر کم ظلم نہیں ڈھائے۔ اس تعزیتی پیغام سے صیہونیوں کے سامنے آل خلیفہ کے مکمل طرح سے گھٹنے ٹیک دینے کا پتہ چلتا ہے۔ واضح رہے گذشتہ صدی کے پانچویں، چھٹے اور ساتویں عشرے میں عرب ملکوں کے لئے صیہونی حکومت کی مخالفت اور اس کے جرائم کی مذمت نیز فلسطینیوں کی حمایت سے اپنے لئے قانونی حیثیت حاصل کرتے تھے یہانتک کہ عربوں اور صیہونی حکومت کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں جس میں انیس سوسڑسٹھ اور انیس سو تہتر کی جنگیں اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن حالیہ دہائی میں عرب ملکوں کے نقطہ نظر اور اپروچ میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے یہانتک کہ انیس سو نوے میں میڈریڈ اور اوسلو عرب صلح کانفرنسیں ہوئی تھیں جن میں ضمنی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرلیا گیا تھا اور عرب ممالک فلسطینی کاز سے مزید دور ہوگئے تھے۔ انیس سو نوے میں بعض عرب ملکوں نے جن میں عمان و قطر بھی شامل ہیں صیہونی حکومت کے تجارتی دفاتر کھولنے کی اجازت دی تا کہ صیہونی حکومت سے سفارتی تعلقات قائم کئے جاسکے۔ دراصل عرب حکام امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کے فیکٹر سے استفادہ کررہے ہیں کیونکہ صیہونی حکومت امریکہ میں بے پناہ اثر و رسوخ رکھتی ہے یہی امر صیہونی حکومت کے سامنے عرب ملکوں کے سرجھکانے کا سبب بنا ہے اور اسی کے نتیجے میں عرب حکومتوں اور عوام میں اختلافات بڑھے ہیں اور عوام احتجاج کررہے ہیں۔