بحرین کی آل خلیفہ حکومت کے مخالفین کی سرکوبی میں شدت
بحرین کی آل خلیفہ حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں عوام کی سرکوبی اور تین بحرینی جوانوں کے تشییع جنازہ سے ممانعت پر ہزاروں بحرینی عوام نے شدید احتجاج کرتے ہوئے علامتی طور پر ان تین بحرینی شہریوں کے جنازوں کی تشییع کی ہے- ان تینوں بحرینی جوانوں کو کچھ عرصہ قبل بحرین کے سیکورٹی اہلکاروں نے شہید کردیا تھا-
بحرین کے عوام نے اسی طرح آل خلیفہ حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں شہید کئے جانے والے بحرینی شہریوں رضا الغسرہ ، محمود یحیی اور مصطفی یوسف کے گھروالوں کو، ان شہیدوں کے تشییع جنازہ میں شرکت سے روکنے کے آل خلیفہ کے اقدام پر شدید برہمی کیا اظہار کیا اور بحرینی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے شاہ بحرین کے خلاف نعرے لگائے- بحرین کے علماء نے بھی ان تینوں شہیدوں کی تشییع جنازہ اور اس میں ان کے اہل خانہ کو شرکت سے روکنے کے آل خلیفہ کے اقدام کی شدید الفاظ مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں ان جوانوں کے علامتی جلوس جنازہ میں شرکت کی اپیل کی تھی-
بحرین کی وزارت داخلہ نے دعوی کیا تھا کہ جو قیدی جیل سے فرار کرگئے تھے ان میں سے تین کو سمندر کے راستے فرار کرتے وقت گولی ماردی گئی ہے جبکہ سات کو گرفتار کرلیا گیا ہے- بحرین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ بحرینی عوام کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے سرکچلنے والے اقدامات میں شدت آگئی ہے اور بحرین کے سرگرم کارکنوں پر مقدمہ چلانے اور ان کو سزائیں دینے کےعمل میں بہت زیادہ وسعت آئی ہے جس کے سبب تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے- بحرین میں فروری دو ہزار گیارہ سے عوامی تحریک جاری ہے اور بحرینی عوام اپنے ملک میں خاندانی آمریت کے خاتمے اور مکمل جمہوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں-
گذشتہ ہفتوں کے دوران آل خلیفہ حکومت کے جارحانہ اقدامات، خونریز صورت اختیار کرگئے ہیں چنانچہ بحرین کے تین سیاسی سرگرم کارکنوں پر بے بنیاد الزام عائد کرکے ان پر فائرنگ کرکے شہید کیا جانا اور اسی طرح آل خلیفہ حکومت کے توسط سے ایک اور مشکوک منصوبہ بندی کے ذریعے تین اور سرگرم بحرینی کارکنوں کو شہید کئے جانے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کے لئے آل خلیفہ کی مشنری تیز ہوگئی ہے-
آل خلیفہ کے جارحانہ اقدامات نے ماضی سے زیادہ اس حکومت کی ماہیت کو برملا کردیا ہے ایسی حکومت جس کی بنیاد ہی سرکوبی اور تشدد پر استوار ہے اور کسی بھی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں ہے- بہرحال آل خلیفہ کی ہٹ دھرمانہ پالیسی کے نتیجے میں اس حکومت کے جیل، سیاسی سرگرم کارکنوں سے بھرے ہوئے ہیں - سیاسی سرگرم کارکنوں کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے ظالمانہ احکام ایسے میں جاری ہو رہے ہیں کہ بحرین کے مخالف گروہوں نے اس امر پر تاکید کی ہے اس وقت تقریبا دس ہزار سیاسی سرگرم کارکن آل خلفیہ کے جیلوں میں قید ہیں کہ جن میں سے ڈیڑھ سو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے اور ان میں سے کچھ کو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا گیآ ہے- سیاسی قیدیوں کے درمیان ڈیڑھ سو بچے بھی ہیں اور دو سو شہری آل خلیفہ کے سیکورٹی اہلکاروں کے تشدد اور شکنجے کے نتیجے میں ہاتھ پیر سے محروم ہوگئے ہیں- آل خلیفہ حکومت اپنی جاحیت میں شدت لاکر بحرینی عوام کی تحریک کو خاموش کرنے کے درپے ہے- بحرین کے عوام پرامن مظاہرہ کرکے اپنے مطالبات تسلیم کئے جانے کے خواہاں ہیں-
آل خلیفہ کی شاہی ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف بحرین میں عوامی مظاہروں میں شدت نے آل خلیفہ حکومت کے ناجائز ہونے کو دنیا والوں کے سامنے پہلے سے زیادہ عیاں اور نمایاں کر دیا ہے۔ آل خلیفہ حکومت کو حالیہ مہینوں کے دوران بحرینی شہریوں کے خلاف تشدد آمیز اقدامات میں اضافہ کرنے خاص طور پر تین سرگرم نوجوان سیاسی کارکنوں کو پھانسی کی سزا دینے کی بنا پر نہ صرف ملک کے اندر سخت اعتراضات کا سامنا ہے بلکہ اقوام متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے بھی اس پر احتجاج کیا ہے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین اور برطانیہ جیسے بعض مغربی ملکوں نے بھی کہ جو عام طور پر آل خلیفہ کے جرائم اور مظالم پر خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں، اس ہولناک جرم پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔
بعض یورپی حکومتیں خلیج فارس کے عرب حکام کے ساتھ خاص طور پر فوجی شعبے میں وسیع پیمانے پر تعاون کر رہی ہیں اور ان میں سے بعض حکومتوں کے بحرین سمیت ان میں سے بعض عرب ممالک میں فوجی اڈے ہیں۔ اس بنا پر ان عرب ممالک میں موجود ڈکٹیٹر حکومتوں کے کمزور ہونے سے ان ملکوں میں یورپی حکومتوں کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ ان باتوں نے یورپی حکومتوں کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ آل خلیفہ کے غیرسنجیدہ اور تشدد آمیز اقدامات پر ردعمل ظاہر کریں۔ یہ امر اس بات کو بیان کرتا ہے کہ بحرین کے بارے میں مغربی حکومتوں کا ردعمل بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں بین الاقوامی تشویش کی بنا پر نہیں ہے بلکہ وہ ان ملکوں میں مغرب کے مفادات اور سیاسی مسائل کے تحت یہ ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔ اس بنا پر مغرب کے نمائشی ردعمل اور موقف سے نہ صرف یہ کہ آل خلیفہ کے جرائم کم نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس سے آل خلیفہ کے تشدد میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ان حمایتوں کے سائے میں آل خلیفہ کے جرائم میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔