سعودی عرب کی متضاد اقتصادی پالیسیاں
سعودی عرب خرچے کم کرنے کی پالیسی سے اپنے اقتصادی مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ پالیسی سعودی حکومت کی سرکاری خرچے اور مراعات کی عادت سے تضاد رکھتی ہے۔
لندن سے شائع ہونے والا اخبار رای الیوم لکھتا ہے کہ سعودی عرب دوہزار بیس تک قیمتیں بڑھانے اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہے گا۔ شاہ سلمان کے دور میں سعودی عرب کی ایک اہم ترین اسٹریٹیجی خرچے کم کرنے کی پالیسیوں پر عمل کرنا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت اقتصادی میدان میں ایسے فیصلے کرتی ہے جن سے عوام اور غیر ملکی مزدوروں اور کارکنوں پر دباؤ بڑھتا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت ٹیکسوں میں اضافہ کرکے نیز ایندھن اور بعض غذائی اشیا کی قیمتوں کو بڑھا کراپنی پالیسیاں آگے لے جارہی ہے۔ سعودی عرب کی حکومت بعض غذائی اشیا کی قیمتوں میں پچاس فیصد سے سو فیصد تک اور ایندھن کی بعض قسموں کی قیمتوں میں تقریبا تیس فیصد اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ آل سعود کی حکومت نے دوہزار بیس تک تنخواہوں اور آمدنی پر بھی ٹیکس لگانے کا جائزہ لینے کا عندیہ دیا ہے۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدور اور کارکن بھی آل سعود کی اقتصادی پالیسیوں سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ سعودی عرب کی حکومت نے دوہزار سترہ میں ان مزدوروں کی تنخواہوں اور دوہزار اٹھارہ میں ان کی آمدنی پر ٹیکس لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت ایسے عالم میں خرچے کم کرنے کی پالیسیوں پر عمل کررہی ہے کہ اس حکومت میں بعض لوگوں کو کافی مراعات دی جاتی ہیں اور وہ سرکاری خرچ پر چلتے ہیں۔ اس طرح کی حکومتوں کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی آمدنی ٹیکس کے ذرائع سے ہٹ کر بالخصوص انرجی کے ذخائر سے حاصل کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مراعات پر چلنے والی حکومتیں ٹیکس نہ لے کر ان کی وفاداری خرید لیتی ہیں اور ان حکومتوں کو اس راستے سے قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ مراعات پر چلنے والی حکومتیں نہ صرف عوام سے ٹیکس نہیں لیتیں بلکہ غذائی اشیا اور ایندھن پر سبسیڈی بھی دیتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں یہ حکومتیں عوام کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کردیتی ہیں اوران ملکوں میں حکومت مطلق العنان حکومت ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال سعودی عرب کی حکومت کی ہے۔ سعودی عرب کے تعلق سے یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا سعودی عرب کی حکومت عوام کے حقوق کا احترام کئے بغیر عوام پر بھاری ٹیکس لگاسکتی ہے اور کیا ایندھن کی قیمتوں کو، جو عوام کی بنیادی ضرورت ہے، بے تحاشا بڑھا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بھی سعودی عرب کے باشندوں کو بہت ہی کم حقوق حاصل ہیں اور ایسے عالم میں جبکہ ساری دنیا میں انسانی حقوق کی بات کہی جارہی ہے سعودی عرب میں ابتدائی ترین انسانی حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا ۔ سعودی عرب کی حکومت عوام کو حقوق دیئے بغیر خرچے کم کرنے کی پالیسیوں کو جاری رکھ کر آئندہ برسوں میں عوامی احتجاج سے روبرو ہوسکتی ہے۔