دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی مکمل نابودی پر ایران کی تاکید
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے سیاسی اور بین الاقوامی سیکورٹی کے امور کے ڈائریکٹر جنرل غلام حسین دہقانی نے ویانا میں این پی ٹی معاہدے کی جائزہ کانفرنس کی تمہیدی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں کہا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ممالک ایٹمی ہتھیاروں کو نابود کرنے سے متعلق این پی ٹی معاہدے میں درج اپنی ذمےداری سے ہمیشہ کے لئے منہ نہیں موڑ سکتے ہیں ۔
یہ کانفرنس دو ہفتوں تک جاری رہے گی۔ اس کانفرنس کا ایک اہم موضوع این پی ٹی معاہدے پر عملدرآمد کی سست رفتاری، ایٹمی ہتھیاروں سے مشرق وسطی کو پاک کئے جانے سے متعلق 1995 کے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے اور ایٹمی ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا جائزہ لینا ہے۔ این پی ٹی کے رکن ممالک ہر پانچ سال کے بعد اس معاہدے کا جائزہ لینے کے لئے کانفرنس بلاتے ہیں اور ہر جائزہ کانفرنس سے قبل تمہیدی کمیٹی کے اجلاس بلائے جاتے ہیں۔
سنہ 1970 ع میں این پی ٹی معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا اور سنہ 1995 ع میں اس میں توسیع کئی گئی لیکن اس کے لئے ٹائم فریم ورک معین نہیں کیا گیا۔ این پی ٹی معاہدے کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ جن ممالک کے پاس ایٹمی صلاحیت نہیں ہے ان کی ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی کی روک تھام کی جائے بلکہ اس کا ایک اور ہدف حتی زیادہ اہم ہدف ایٹمی ہتھیاروں کا نابود کیا جانا بھی تھا ۔
این پی ٹی معاہدے کی چھٹی شق میں ایٹمی ہتھیاروں کے نابود کئے جانے کو ضروری قرار دیا گیا ہے جس پر عملدرآمد کیا جانا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ممالک ایٹمی ترک اسلحہ کی اپنی ذمےداری کو پورا نہیں کر رہے ہیں اور یہی چیز بجائے خود این پی ٹی معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس رکاوٹ کا دور کیا جانا ضروری ہوچکا ہے۔ این پی ٹی ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اس لئے کسی بھی بہانے سے ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے پاس رکھنا امن و سیکورٹی کے لئے خطرہ ہے۔
ویانا کانفرنس ایسی حالت میں بلائی جا رہی ہے کہ جب دنیا میں موجود ہزاروں ایٹمی وارہیڈز کرۂ ارض کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ان ہتھیاروں کے حامل ممالک ان ہتھیاروں کی جدید کاری کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ صیہونی حکومت مشرق وسطی میں ایٹمی ہتھیار رکھنے والی واحد حکومت ہے اور اس حکومت نے خطے کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اسی لئے غلام حسین دہقانی نے ویانا کانفرنس میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صیہونی حکومت پر اپنا دباؤ ڈالے تاکہ یہ حکومت غیر مشروط طور پر این پی ٹی معاہدے پر دستخط کرے اور اس کی تمام ایٹمی سرگرمیاں ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی انجام پائیں۔
ویانا میں ہونے والے اس تمہیدی اجلاس میں یہ موقع میسر ہوا ہے کہ اس معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لینے کے علاوہ اس معاہدے کے اہداف پورے نہ ہونے کے اسباب کو بھی واضح کیا جائے کیونکہ جب تک اس معاہدے کی راہ میں حائل رکاوٹیں موجود رہیں گی اور اس معاہدے پر نظر ثانی کا عمل سست رفتاری کا شکار رہے گا تب تک اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکے گا ۔
دوسری جانب چونکہ دنیا میں ایٹمی ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد کے لئے استعمال کئے جانے میں اضافہ ہوا ہے اور ممالک کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے ہمکنار ہونے کی ضرورت ہے اس لئے اس موضوع کو ایٹمی خطرات سے الگ کیا جانا چاہئے اور پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال خصوصا ترقی پذیر ممالک کو ایٹمی مواد اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے متعلق آلات کی منتقلی پر عائد پابندی کا خاتمہ کیا جانا چاہئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ویانا کانفرنس میں ان اہداف تک رسائی کے لئے کیا طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ۔