May ۱۰, ۲۰۱۷ ۱۷:۲۷ Asia/Tehran
  • امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ جوزف ڈنفورڈ کا دورہ اسرائیل

صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کے ساتھ ملاقات میں، اس حکومت کے ساتھ تعاون میں اضافے پر امریکہ کی قدردانی کی-

صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان بہت اچھا اتحاد قائم ہے اور اسرائیل، اس اتحاد کی قدر کرتا ہے- امریکی فوج کے اس اعلی کمانڈر نے بھی اس ملاقات میں ایک بار پھرصیہونی حکومت کی ہمہ جانبہ حمایت سے متعلق واشنگٹن کے پرعزم ہونے پر تاکید کی- جنرل ڈنفورڈ کا مقبوضہ فلسطین کا یہ تیسرا دورہ ہے اور نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد، ان کا اس سرزمین کا پہلا دورہ شمار ہوتا ہے-

اس دورے میں جنرل ڈنفورڈ کی کوشش ہے کہ دونوں فریق کے درمیان فوجی اور سیکورٹی تعلقات کو مزید فروغ دیں- البتہ تل ابیب اور واشنگٹن کے تعلقات ہمیشہ وسیع پہلوؤں کے حامل رہے ہیں- کیوں کہ جو بھی صدر امریکہ میں برسر اقتدار آتا ہے اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں دوسرے پر سبقت لے جائے- ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکہ میں اس سیاسی اصول سے مستثنی نہیں ہیں- اسی سبب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات سے پہلے بھی اور وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے بعد بھی کھل کراسرائیلی حکومت کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے- ٹرمپ نے امریکہ کی سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کے برخلاف قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ فلسطین منتقل کردیں گے-

اس وعدے پر عملدرآمد سے عالم اسلام میں غم وغصے کی آگ مزید بھڑک اٹھے گی- امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس ممکنہ منتقلی کے خلاف شدید ردعمل اس بات کا باعث بنا کہ ٹرمپ نے اعلان کردیا کہ وہ اس وقت اس مسئلے کا جائزہ لے رہے ہیں- اس کے ساتھ ہی ٹرمپ بدستور اس کوشش میں ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر جاری رکھنے کے سلسلے میں صیہونی حکومت پرجو سیاسی دباؤ ہے اس میں کمی لائیں- انہوں نے امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما کے دور صدرات میں، وائٹ ہاؤس کی ظاہری تنقیدی پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے باضابطہ طور پر سازباز مذاکرات اور صیہونی بستیوں کی تعمیر کے درمیان کوئی رابطہ ہونے کو مسترد کردیا تاکہ اسرائیلی حکام آسودہ خاطر ہوکر بدستور فلسطینیوں کی مقبوضہ سرزمینوں میں کالونیوں کی تعمیر جاری رکھ سکیں- 

ساتھ ہی ٹرمپ حکومت، اسرائیل کے لئے بلا عوض امداد میں اضافے کا بھی ارادہ رکھتی ہے-امریکہ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو سالانہ تین ارب ڈالر بلاعوض امداد دی جاتی ہے جس کا بڑا حصہ فوجی ساز وسامان پرخرچ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ سالانہ اربوں ڈالر آسان شرائط پراسرائیل کو قرض دیتا ہے جن سے اسرائیلی حکومت مغربی ملکوں کے جدیدترین اسلحے خریدتی ہے- یہ امداد، غاصب حکومت کی تشکیل کے وقت سے اب تک ایک سو اٹھارہ ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے کہ جس میں اناسی ارب ڈالر سے زیادہ فوجی امداد تھی- اور مستقبل قریب میں تین ارب ڈالر کی امداد میں مزید ایک ارب ڈالر اضافہ کیا جانا طے پایا ہے-

امریکی حکام کو امید ہے کہ وہ اس قسم کی امداد میں اضافہ کرکے، مغربی ایشیاء کے علاقے میں اسرائیل کی پوزیشن کو بہتر اور مضبوط  کریں گے اور اس جارح حکومت کو اس کے جارحانہ اقدامات کے لئے مزید کھلی چھوٹ دے دیں گے- اسی اسٹریٹیجی کے دائرے میں صیہونی حکومت، گذشتہ مہینوں کے دوارن شام کی سرزمین پر اپنی فوجی کاروائیوں میں شدت لائی ہے اور اس ملک کے متعدد علاقوں پر بمباری کی ہے- جنرل ڈنفورڈ بھی ، واشنگٹن کی جانب سے تل ابیب کی بربریت کی ہمہ جانبہ حمایت کا پیغام لے کر مقبوضہ فلسطین پہنچے ہیں- ڈنفورڈ کا یہ دورہ ، کہ جو ٹرمپ کے عنقریب دورہ اسرائیل کا پیش خیمہ بتایا جا رہا ہے، ممکن ہے مغربی ایشیاء کے علاقے میں صیہونی حکومت  کے جارحانہ عزائم کو مزید قوت عطا کرے اور ایسا ہونے کی صورت میں اس علاقے کا بحران مزید پیچیدہ ہوجائے گا -      

   

 

ٹیگس