بحرین کے شیعوں کے خلاف آل خلیفہ کے ظالمانہ رویوں پر شدید ردعمل
بحرین کی جمعیت الوفاق کے سیکریٹری جنرل نے جیل سے ایک پیغام میں ، اس ملک کے ممتاز عالم دین شیخ عیسی قاسم کے خلاف بحرین کی نمائشی عدالت کے فیصلے کو ظالمانہ اور بحرین کے عوام کے خلاف منظم حملہ قرار دیا ہے۔
شیخ علی سلمان جو آل خلیفہ کے بے بنیاد الزامات کے سبب جیل میں قید ہیں، شیخ عیسی قاسم کی سلامتی کا ذمہ دار بحرین کی حکومت کو قرار دیا ہے- واضح رہے کہ آل خلیفہ حکومت نے گذشتہ ہفتے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو ایک سال قید کی سزا سناتے ہوئے ان کی جائیداد کو ضبط کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے خلاف عوام وسیع پیمانے پر مظاہرے کر رہے ہیں-
چودہ فروری دو ہزار گیارہ سے اس ملک میں آل خلیفہ حکومت کے خلاف عوامی احتجاجات اور جارحانہ و وحشیانہ اقدامات کے مقابلے میں بحرینی عوام کی استقامت کا سلسلہ جاری ہے۔ بحرین کے عوام اپنے ملک میں جمہوریت و آزادی اور انصاف کے قیام کے خواہاں ہیں اس لئے کہ اس ملک کی آل خلیفہ حکومت نے آزادی اظہار رائے، ملک میں پرامن احتجاجات نیز سیاسی گروہ یا جماعت تشکیل دیئے جانے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ بحرین کی حکومت نے عوامی احتجاج کے شعلے کو خاموش کرنے کے لئے بہت سے مخالف رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان کو بے بنیاد الزامات میں طویل مدت کے لئے جیلوں میں ڈال دیاہے-
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ ریاض کے بعد شیعوں کی سرکوبی میں شدت اس بات کی علامت ہے کہ امریکی صدر نے عوامی احتجاجات کو کچلنے کے لئے ہری جھنڈی دکھائی ہے- دوہزار گیارہ سے آل خلیفہ حکومت ، سعودی فوجیوں کی پشتپناہی اور مغربی ملکوں خاص طور پر امریکہ کی ہمہ جانبہ حمایت کے ذریعے، کہ جس کا اس ملک میں فوجی اڈہ بھی ہے، عوام کے پرامن مظاہروں کو سختی سے کچل رہی ہے
آل سعود کے نقطہ نگاہ سے بحرین ایک خودمختار ملک نہیں ہے بلکہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کا ایک حصہ ہے اور بحرین میں جو بھی تبدیلی رونما ہوگی اس کا اثر سعودی عرب خاص طور پر اس ملک کے مشرقی علاقوں پر پڑے گا - اس بناء پر سعودی عرب نے چودہ مارچ دوہزار گیارہ سے اپنے فوجی بحرین میں اتار دیئے - شیخ عیسی قاسم اور شیخ علی سلمان جیسے رہنماؤں کے ساتھ بحریی حکام کا ظالمانہ رویہ ، سعودی عرب کے ممتاز عالم دین شہید شیخ نمر باقر النمر کے ساتھ سعودی حکام کے رویوں جیسا ہی ہے اور اس مسئلے نے بحرین کے اندر اور مجموعی طور پر علاقے کی رائے عامہ میں شیخ عیسی قاسم کی سرنوشت کے تعلق سے تشویش پیدا کردی ہے-
ایسے حالات میں سیاسی تجزیہ نگاروں نے عرب حکام اور علاقے کے ترکی جیسے بعض ملکوں کے ساتھ ہم آہنگی کرکے شیخ عیسی قاسم کو جلا وطن کرنے کے آل خلیفہ حکومت کے مشکوک اقدام کی خبر دی ہے - دوسری جانب بحرین کے مذہبی پیشوا آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے نمائندے شیخ عبداللہ الدقاق نے کہا ہے کہ عراقی حکومت کی جانب سے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو نجف اشرف جلاوطن کرنے کی درخواست مسترد کئے جانے کے بعد حکومت بحرین انھیں ترکی یا متحدہ عرب امارات جلاوطن کرنا چاہتی ہے-
بحرینی شیعوں کے مذہبی رہنما کے نمائندے نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو اپنے ملک اور اپنے عوام کے درمیان رہنا چاہئے، انھیں کسی بھی دوسرے ملک میں جلاوطن کرنے کی مخالفت کی ہے- اور اسی سلسلے میں شائع ہونے والی بعض رپورٹوں کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے دورہ بحرین کے موقع پر، شاہ بحرین شیخ حمد بن عیسی آل خلیفہ نے، شیخ عیسی قاسم کو ترکی جلا وطن کئے جانے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے-
یہ بات مسلم ہے کہ آل خلیفہ حکومت بحرینی عوام کے درمیان شیخ عیسی قاسم کی مقبولیت اور ان کے اثر ورسوخ سے پوری طرح واقف ہے اور اسی لئے وہ کسی نہ کسی طرح ان کو جلا وطن کرنے کے درپے ہے- اور آل خلیفہ حکومت نے اپنے اسی مذموم مقصد کو عملی جامہ پہنانے اور اس کے لئے زمین ہموار کرنے کے مقصد سے جون 2016 میں آپ کی شہریت سلب کرلی تھی لیکن ان کے گھر کے اطراف میں بحرینی عوام کے مسلسل دھرنے اور ان کی وہاں موجودگی کے سبب آل خلیفہ حکومت شیخ عیسی قاسم کو گرفتار یا جلاوطن نہیں کرسکی - اسی لئے آل خلیفہ حکومت نے بحرینی عوام کو ان کے قائد و رہبر سے جدا کرنے کے لئے شیخ عیسی قاسم کے خلاف نئے احکامات صادر کرنے کے بعد الدراز پر حملہ کرکے شیخ عیسی قاسم کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور عملی طور پر ان کو گھر میں نظر بند کردیا ہے-
بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی جانب سے عمل میں لائے جانے والے اس طرح کے اقدامات سے اس کی ظالمانہ اور جارحانہ ماہیت آشکار ہوجاتی ہے۔ اس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت حال اتنی ہی زیادہ سخت اور خراب ہے کہ کوئی بھی دیکھنے والا اپنے پہلے ہی مشاہدے میں ان خلاف ورزیوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور انسانی حقوق کی موجودہ صورت حال سے اپنی نفرت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اس بات کا بحرین کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں میں بخوبی مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے
بحرین کی حکومت پر کسی بھی طرح کی تنقید کرنے پر بھی پابندی ہے۔ اس ملک میں قانونی و سیاسی سرگرمیاں مکمل محدود ہیں اور اس ملک کے بہت سے شہریوں کو بحرین میں قانونی، سیاسی و اقتصادی اصلاحات کی ضرورت کے بارے میں کسی بھی قسم کا اظہار خیال کئے جانے پر آل خلیفہ کی عدالتوں میں قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران بحرینی شہریوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کو قانونی بنانے کے لئے آل خلیفہ حکومت کے جاری اقدامات اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر کھلی خلاف ورزیاں، اس بات کا باعث بنی ہیں کہ بحرینی عوام نے حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔