Jul ۰۵, ۲۰۱۷ ۱۸:۳۲ Asia/Tehran
  • عالمی برادری منشیات کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرے

منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ دنیا میں تشویش کا سبب بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تشویش میں اضافے کی وجہ کیا ہے اور منشیات کی اسمگلنگ ایک ختم نہ ہونے والی مشکل کیوں بن چکی ہے؟ منگل کے دن تہران میں انسداد منشیات کے عالمی دن کے موقع پر بلائی جانے والی کانفرنس میں اسی موضوع کا جائزہ لیا گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کےاسپیکر علی لاریجانی نے اس کانفرنس میں کہا کہ منشیات کی اسمگلنگ انسانوں کے جسم و روح کو تباہ کر دیتی ہے، خاندانوں کو بکھیر دیتی ہے اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے یہ معاشرے کے لئے ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ ایران کسی حد تک منشیات کے اسمگلنگ کے راستے کو کنٹرول کرتا ہے اور دوسرے ممالک کو بھی اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ صرف ایران ہی اس کی قیمت چکائے اور دوسرے ممالک اس کی پیداوار میں لگے رہیں۔

عالمی اندازوں کے مطابق اس وقت دہشت گردی اور منشیات کی پیداوار  علاقائی اور عالمی استحکام اور قومی سلامتی کے لئے دو بڑے خطرے شمار ہوتے ہیں۔

ایران کے پڑوس میں افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو منشیات کی پیداوار کا مرکز ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں منشیات کی پیداوار اور دہشت گردی کے مقابلے کے مقصد سے سنہ دو ہزار ایک میں اس ملک پر حملہ کیا تھا ۔ اس وقت سے لے کر اب تک سولہ برس گزر چکے ہیں۔ نیٹو خصوصا برطانیہ کے فوجیوں نے ، کہ جنہوں نے افغانستان میں منشیات کی پیداوار کی روک تھام کی ذمےداری سنبھال رکھی ہے،  منشیات کی پیداوار کی روک تھام اور انتہاء پسند گروہوں کے مقابلے کے سلسلے میں کوئی قابل ملاحظہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ اس سلسلے میں تشویشناک بات یہ ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ دہشت گردوں کی مالی آمدنی کا ایک ذریعہ بن چکا ہے اور اس کے منفی اثرات خطے کے ممالک کی سلامتی پر پڑ رہے ہیں۔

روس میں بین الاقوامی امور کے ماہر آندرے کازنتسیف کا اس بارے میں کہنا ہے کہ افغانستان کی صورتحال اور وسطی ایشیا کے ممالک کی سلامتی پر پڑنے والے اس کے اثرات بہت منفی نتائج کے حامل ہیں۔ مجموعی طور پر وسطی ایشیائی ممالک میں جاری رہنے والے روایتی خطرات روس کی سلامتی کے لئے بھی خطرہ شمار ہوتے ہیں۔

اس صورتحال میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ  کیا ایران سمیت خطے کے صرف بعض ممالک کی جانب سے منشیات کے مقابلے کی کوششیں کامیاب ہو سکیں گی؟ اور کیا دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک منشیات کا نیک نیتی کے ساتھ مقابلہ کریں گے؟

المناک حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں دس ملین افراد منشیات کے دھندے میں ملوث ہیں اور منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک ہزار پانچ سو ارب ڈالر ہے۔ منظر عام پر آنے والی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں سنہ دو ہزار سولہ کے دوران منشیات کی پیداوار پانچ ہزار چھ سو ٹن تک پہنچ گئی تھی۔ انہی رپورٹوں کے مطابق ان میں سے تقریبا پینتیس فیصد منشیات ایران کے راستے دوسرے ممالک تک لے جائی جاتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران انسداد منشیات کی فرنٹ لائن پر ہے اور منشیات کے مقابلے میں ایران کے تین ہزار پانچ سو سے زیادہ جوان شہید اور دس ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔

افغانستان کی  وزیر برائے انسداد منشیات سلامت عظیمی نے مارچ سنہ دو ہزار سترہ میں تہران میں بلائی جانے والی بین الاقوامی انسداد منشیات کانفرنس میں منشیات کی اسمگلنگ کے مقابلے سے متعلق ایران کی سنجیدگی کی قدردانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ توقع کی جاتی ہے کہ افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک بھی ایران کی طرح اپنی سرحدوں کو بند اور موت کے سوداگروں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ اقدامات انجام دیں گے۔ افغانستان میں منشیات کی پیداوار صرف خطے کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران منشیات کا بھرپور مقابلہ کر رہا ہے اور وہ اگلے مورچے کے طور پر عالمی امن کے لئے اس کی قیمت چکا رہا ہے لیکن جیسا کہ علی لاریجانی نے تہران میں منعقدہ کانفرنس میں کہا ہے کہ منشیات کے مقابلے کے سلسلے میں عالمی سطح پر عزم و ارادہ نہیں پایا جاتا ہے اور منشیات کے مقابلے کی ساری قیمت ایران نہیں چکائے گا۔

ٹیگس