Aug ۰۵, ۲۰۱۷ ۱۹:۴۶ Asia/Tehran
  • اسرائیل کے ساتھ اردن کے تعلقات ختم کرنے پر تاکید

اردن میں مشتعل مظاہرین نے صیہونی حکومت کا سفارت خانہ بند کرنے اور امّان تل ابیب تعلقات مکمل طور پر ختم کرنے پر تاکید کی ہے۔ اردن کے دارالحکومت امّان میں ہزاروں اردنی مظاہرین نے جمعے کے دن صیہونی حکومت کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔

مظاہرین نے صیہونی سفارت خانے کے گارڈز کے ہاتھوں دو اردنی شہریوں کے مارے جانے اور بیت المقدش  شہر خصوصا مسجدالاقصی میں صہونی حکومت کی جانب سے سرکوبی کا سلسلہ جاری رہنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ مظاہرین نے صیہونی حکومت کے ساتھ گیس کی تجارت کے خلاف بھی احتجاج کیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا کہ اسرائیل سے گیس خریدنا صیہونی قبضے کے مترادف ہے۔ صیہونی حکومت سے گیس خریدنے سے جہاں اردن اس حکومت سے وابستہ ہوتا ہے وہیں فلسطینی ذخائر کی لوٹ مار میں اردن بھی غاصب صیہونی حکومت کے جرم میں برابر کا شریک شمار ہوتا ہے۔

دریں اثنا اردن کے اٹھاسی اراکین پارلیمنٹ نے حکومت کو ایک خط لکھا ہے اور اس سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ اردن کی سرزمین سے اسرائیلی سفیر کو نکال باہر کرے۔ رواں سال تیئیس جولائی کو امّان شہر میں صیہونی حکومت کے سفارت خانے کے سامنے ہونے والی فائرنگ میں اردن کے دو شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ دونوں شہری اسرائیلی سفارت خانے کے گارڈز کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ اردن میں صیہونی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس ملک کے عوام اسرائیل سے شدید نفرت کرتے ہیں اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کو صیہونی حکومت اپنے ملک کے حکام کی سازباز پر بھی اعتراض ہے۔ مصر کے بعد اردن دوسرا ملک ہے جس نے صیہونی حکومت کے ساتھ باضابطہ طور پر سیاسی اور اقتصادی تعلقات استوار کر رکھےہیں۔ اردن کی حکومت کے مخالفین نے بارہا  وسیع پیمانے پر مظاہرے کر کے اور صیہونی حکومت کے پرچم کو آگ لگا کر ناجائز صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اردن کے عوام کے بڑھتے ہوئے اعتراضات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں توسیع لانے پر مبنی صیہونی حکومت کے اقدامات کے باوجود یہ تعلقات سرکاری سطح سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں اور ان ممالک کے عوام کے احتجاج کا دائرہ پارلیمنٹ سمیت سرکاری اداروں تک پھیل چکا ہے۔ اردن کے دارالحکومت امّان سے اسرائیل کے سفیر کے نکالے جانے پر اردن کی پارلیمنٹ کی  تاکید کا بھی اسی تناظر سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔

اردن اور صیہونی حکومت کے تعلقات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس حکومت کے ساتھ سازباز کا نتیجہ صیہونیوں کے زیادہ گستاخ ہونے کے علاوہ کچھ اور برآمد نہیں ہوتا ہے۔ اسرائیلی سفارت خانے کے حالیہ جرم سے اسی حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ اقتصادی میدان میں یہی کچھ نظر آتا ہے۔ سنہ انیس سو چورانوے میں صیہونی حکومت اور اردن نے سازباز معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس زمانے سے دوطرفہ سیاسی تعلقات کے علاوہ اقتصادی تعلقات میں بھی توسیع آ رہی ہے اور اردن اسرائیلی سامان کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ اسی امر کے پیش نظر اردن کی رائے عامہ میں نفرت پھیل گئی ہے۔ خطے کی صورتحال سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ  خطے میں اسلامی بیداری کی نئی لہر کے بعد صیہونی حکومت  کے مقابلے کے لئے عالم اسلام کی تمام صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا راستہ ہموار ہوچکا ہے۔ اسلامی اور عرب ممالک کے عوام کی جانب سے صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کی درخواست درحقیقت عوام کے اس مطالبے کی غماز ہے کہ ان ممالک کی حکومتیں صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے مقابلے میں دوٹوک انداز میں فیصلے کریں۔  خطے کے حالات سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت خطے اور دنیا میں مکمل طور پر الگ تھلگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس بات کا اعتراف حالیہ ہفتوں کے دوران صیہونی حکام بھی بارہا کر چکے ہیں اور انہوں نے اس پر اپنی شدید تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔

ٹیگس