ایران کے خلاف یورپی یونین کے دوہرے موقف پر نکتہ چینی
ایران نے ستائئس جولائی 2017 کو تہران میں امام خمینی ایئرو اسپیس ریسرچ سینٹر سے سیمرغ نامی سیٹلائٹ کیریر کامیابی سے خلا میں روانہ کیا تھا۔ ایران کی اس سائنسی کامیابی پر امریکہ اور یورپی یونین نے اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا -
خارجہ تعلقات کی اسٹریٹیجک کونسل کے سربراہ کمال خرازی نے پیر سات اگست کو آئی آر آئی بی نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کے امور خارجہ کی انچارج فیڈریکا موگرینی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے، ایران کے سائنسی تحقیقاتی سیٹلائٹ کیریر سیمرغ کے تجربے کے خلاف امریکی بیان کی حمایت کیوں کی ہے۔ سید کمال خرازی نے یورپی یونین کے امور خارجہ کی انچارج فیڈریکا موگرینی کے ساتھ اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موگرینی کے پاس یورپی ٹروئیکا کی جانب سے امریکہ کے ایران مخالف بیان کی حمایت کا کوئی جواب نہیں تھا۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی یورپی یونین کے امور خارجہ کی انچارج فیڈریکا موگرینی کے ساتھ ملاقات میں واضح کیا ہے کہ سیمرغ سیٹلائیٹ کیریر کا تجربہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے منافی نہیں ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے اس تجربے کے خلاف یورپی ٹروئیکا اور امریکہ کے مشترکہ بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے غلط راستہ قرار دیا- ایران اور یورپی یونین کے تعلقات ، اس وقت ایک دوسرے کے خلاف تنقیدی مراحل سے گذر کر اقتصادی، اور علاقائی و بین الاقوامی تعاون کے مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں لیکن جب تک کہ یورپی یونین کی جانب سے سیاسی اہداف کے ساتھ اس طرح کے موقف اپنائے جاتے رہیں گے اس میں غیر یقینی کی صورتحال پائی جائے گی-
ایران اور یورپی یونین کے درمیان ماضی میں اچھے اور مثبت تعلقات قائم رہے ہیں اس کے باوجود، دس سالہ پابندیوں کے دوران ایران اور یورپی یونین کے تعلقات کو زبردست نقصان پہنچا ہے - مسز موگرینی نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کی حیثیت سے اس مسئلے کا اعتراف کیا ہے کہ یورپی یونین کو اپنے قومی مفادات کے پیش نظر وائٹ ہاؤس کی یکطرفہ پالیسی کا تابع نہیں بننا چاہئے اور ایک بیان میں گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر مکمل عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے- اس میں شک نہیں ہے کہ یورپی یونین کے مواقف کا شفاف ہونا اور ایٹمی معاہدے کی حمایت میں اپنی ذمہ داری قبول کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے- لیکن یہ کہ یورپی یونین ایران میں ایرو اسپیس کے شعبے میں ترقی کے تعلق سے اپنی تشویش ظاہر کرنے اور اس سلسلے میں امریکہ کے ساتھ ہم فکری کے ذریعے کس طرح سے امریکی دباؤ اور اس کی افتراپردازیوں کے مقابلے میں اپنے مفادات کا دفاع کرسکتی ہے، یہ خود جائے سوال ہے-
فارن پالیسی جریدہ اپنے ایک مقالے میں ایران اور ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں امریکہ اور یورپی یونین کے مواقف پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے: ایٹمی سمجھوتے کے بعض مخالفین کے دعووں کے برخلاف ، سٹلائٹ کا خلا میں بھیجا جانا، ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس میں ایران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ، ان میزائلوں کے تجربات سے اجتناب کرے جو وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں- خارجہ تعلقات کی اسٹریٹیجک کونسل کے سربراہ نے اسی تعلق سے کہا کہ انہوں نے اس ملاقات میں فیڈریکا موگیرینی پر واضح کردیا ہے کہ سمیرغ سیٹلائٹ کیریر، سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے ایٹمی اور روایتی ہتھیار ہرگز نہیں چلائے جاسکتے۔ کمال خرازی کا کہنا تھا کہ ایران جو بھی کررہا ہے وہ جامع ایٹمی معاہدے کے دائرے میں ہے جبکہ دوسرے ممالک اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں-
فارن پالیسی جریدہ مزید لکھتا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم ، اس سے قطع نظر کہ سٹلائٹ کا خلا میں بھیجا جانا قانونا صحیح ہے یا صحیح نہیں ہے ، اس ہدف کے درپے ہے کہ ایران میں ایئرو اسپیس ریسرچ سینٹر میں انجام پانے والے تجربے کو ایک خطرہ ظاہر کرے اور اسے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی نابودی کے لئے ایک بہانہ قرار دے، جیسا کہ ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی معاہدے کو ایک المیہ اور بدترین معاہدہ قرار دیا ہے-
بہر صورت یورپی یونین کو امریکہ کے ساتھ اپنی اس ہم آہنگی سے ، یقینا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا-