شامی فوج دیر الزور کے قریب پہنچ گئی
شامی فوج دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے دیر الزور کے قریب پہنچ گئی ہے۔
شام کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ شام کی فوج صوبہ دیرالزور کے مغربی علاقوں میں پیشقدمی کرتے ہوئے اس صوبے کے صدر مقام سے تیس کلومیٹر تک کے فاصلے پر پہنچ گئی ہے۔ دیر الزور شام کا اہم ترین علاقہ ہے۔ دہشت گردوں کے لئے دیر الزور کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ دہشت گرد گروہوں نے اس شہر کو اپنا ایک نام نہاد دارالحکومت قرار دے رکھا تھا اور حالیہ مہینوں کے دوران اس اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ شام کے شہر رقہ اور عراق کے شہر موصل میں دہشت گردوں کی شکست کے بعد دہشت گرد گروہ داعش کے اکثر سرغنے فرار ہو کر دیر الزور چلے گئے تھے۔
شامی فوج کے دیرالزور کے قریب ہونے کی مختلف وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ داعش کی عسکری طاقت زوال کا شکار ہوگئی ہے۔دہشت گرد گروہ داعش صرف شام میں ہی نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے ممالک خصوصا عراق میں بھی اس کا عسکری ڈھانچہ تھا لیکن حالیہ ایک سال کے دوران اس دہشت گرد گروہ کا عسکری ڈھانچہ زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ عراقی فوجیوں کے ہاتھوں موصل شہر اور پھر ایک ہفتے کے اندر تلعفر کی آزادی سے ثابت ہوگیا ہے کہ عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کی عسکری طاقت زوال کا شکار ہوچکی ہے۔ یہی حالت شام میں بھی ہے۔ شام میں سنہ دو ہزار سولہ میں حلب شہر کی آزادی کے بعد دہشت گرد گروہ داعش زوال کا شکار ہے اور اب اس کے زوال میں تیزی پیدا ہوچکی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد گروہوں خصوصا داعش کا نظریاتی پہلو بھی کمزور ہوچکا ہے۔ اس گروہ کے عناصر گزشتہ چند برسوں کے دوران قتل ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ بہشت ان کی منتظر ہے لیکن اب اس سوچ کا غلط ہونا واضح ہوچکا ہے۔اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ گروہ اب اپنے باقی ماندہ عناصر کی نجات کے لئے حزب اللہ سے مذاکرات پر تیار ہوگیا ہے۔ درحقیقت دہشت گرد گروہ داعش اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ جغرافیائی محاصرے سے نجات پانے کے لئے اپنے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے بھی آمادہ ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ شام میں دہشت گرد گروہ داعش کی شکست اور شامی فوج کو حاصل ہونے والی کامیابی اسلامی جمہوریہ ایران، روس اور استقامت کے مجاہدین کی جانب سے دہشت گردی کے مقابلے میں شامی حکومت کی حمایت کا نتیجہ ہے مثلا روس کی فضائی پشت پناہی کے نتیجے میں شام کی فوج دیرالزور کے قریب پہنچ سکی ہے اور قلمون و عرسال میں دہشت گردوں کی شکست میں استقامت کے مجاہدین نے اہم کردار ادا کیا۔
دہشت گرد گروہ داعش کی عسکری طاقت اور ان کے نظریاتی پہلو کے زوال کا شکار ہونے کی وجہ سے اس گروہ کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرانا شام کی فوج کے لئے آسان ہوگیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ دیرالزور کو دہشت گردوں کے نزدیک بہت اہمیت حاصل ہے، اس شہر میں دہشت گردوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور دیر الزور ان معدودے چند علاقوں میں سے ایک اہم علاقہ ہے جو دہشت گردوں کے قبضے میں ہے اس لئے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس شہر کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے طویل وقت درکار ہوگا لیکن جیسا کہ شام کے صدر بشار اسد نے بھی گزشتہ اگست کے مہینے میں کہا تھا کہ شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور بہت جلد یہ جنگ اختتام پذیر ہوجائے گی۔