Sep ۰۵, ۲۰۱۷ ۱۱:۵۳ Asia/Tehran
  • پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات

اسلام آباد اور کابل کے تعلقات بدستور کشیدہ ہیں۔ دریں اثناء افغانستان کے صوبۂ قندہار سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمنٹ شکیبا ہاشمی نے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت افغانستان سے متعلق اپنے وعدوں پر عمل نہیں کر رہی ہے۔

شکیبا ہاشمی نے پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے اس بیان پر ،کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے افغان حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہے، رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکام نے افغان حکومت کے ساتھ جو وعدے کئے ہیں ان کے سلسلے میں وہ نیک نیتی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں اور اپنے وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنا رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ افغانستان اور پاکستان بدستور ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر رہے ہیں۔ افغان حکام چاہتے ہیں کہ اسلام آباد کی حکومت زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے کشیدہ ہونے کا سبب اسلام آباد میں فیصلہ کرنے سے متعلق پایا جانے والا اختلاف ہے۔ پاکستان کے سول حکام افغانستان کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن افغانستان کے ساتھ تعلقات کا معاملہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اختیار میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے سیاسی اور مقامی حکام پاکستانی حکام کے وعدوں کو کھوکھلا جانتے ہیں۔ پاکستان کے فوجی جنرلوں کے نزدیک اسلام آباد افغانستان میں بدستور من مانی کر سکتا ہے۔ لیکن افغان حکام کے نزدیک افغانستان ایک آزاد اور عوامی حکومت کا حامل ملک ہے اس لئے پاکستانی حکومت کو افغانستان کے قومی اقتدار اعلی کا احترام کرنا چاہئے۔یہی وجہ ہے  کہ جب تک افغانستان کے بارے میں پاکستانی حکام کا زاویۂ نگاہ تبدیل نہیں ہوگا اس وقت تک دونوں ممالک کے تعلقات مشکلات کا شکار رہیں گے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی امور کے ماہر عبدالشکور اخلاقی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دوستی کا اظہار ہمیشہ صرف زبانی دعووں اور اعلامیوں کے ذریعے کیا جاتا رہا ہے اور افسوس کہ ان باتوں کو کبھی عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے اور اب بھی پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کئے جانے کی وجہ سے بہت سے افغان شہری مارے جارہے ہیں۔

دو طرفہ مسائل کے علاوہ حالیہ برسوں کے دوران کابل اور اسلام آباد کے تعلقات افغانستان میں ہندوستان کے اثرورسوخ اور امریکہ کی پالیسیوں سے بھی متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ تعلقات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی دیرینہ دشمنی کے پیش نظر پاکستان افغانستان میں نئی دہلی کی موجودگی کے سلسلے میں بہت زیادہ حساس ہے۔ کابل کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات میں توسیع آنے سے پاکستان اور ہندوستان کی باہمی کشمکش کا دائرہ افغانستان تک پھیل گیا ہے۔

تہران میں مقیم برصغیر کے سیاسی امور کے ماہر جعفر حق پناہ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتا اور اپنے حریفوں کو شکست دینا چاہتا ہے ۔ پاکستانی حکام کا دعوی ہے کہ اگر وہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ برقرار نہ رکھ سکے تو ان کو نقصان ہوگا۔

بہرحال افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی ایسی حالت میں برقرار ہے کہ جب دونوں ممالک کو ایک مشترکہ دشمن یعنی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ دہشت گردی دونوں ممالک کی قومی سلامتی کے لئے شدید خطرہ بن چکی ہے۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب دہشت گردی سے مقابلے کا مسئلہ نہ صرف کابل اور اسلام آباد کے اختلافات میں تبدیل ہوچکا ہے بلکہ حالیہ برسوں کے تجربات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ دو طرفہ اور چند طرفہ علاقائی باہمی تعاون کے بغیر دہشت گردی کی لعنت کا مقابلہ بہت ہی کٹھن بلکہ ناممکن ہے۔

 

ٹیگس