Sep ۰۵, ۲۰۱۷ ۱۴:۰۵ Asia/Tehran
  • روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خاتمے پر ایران کی تاکید

میانمار کے معاشرے کے ایک حصے کے طور پر روہنگیا مسلمانوں کو منظم تشدد کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔

مغربی میانمار میں واقع صوبہ راخین کے مختلف علاقوں میں روہنگیا مسلمانوں کے دیہاتوں اور گھروں کو آگ لگائے جانے اور فوجیوں کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد بے گھر ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ میانمار کی حکومت ایک ملین سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے اور ان کو اپنے ملک کے شہری نہیں جانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبۂ راخین میں سنہ دو ہزار بارہ سے روہنگیا مسلمانوں پر اس ملک کی فوج اور انتہا پسند بڈھسٹوں کے حملے جاری ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران انتہا پسند بڈھسٹوں نے روہنگیا مسلمانوں کے اموال کی لوٹ مار کے مقصد سے ان کی نسل کشی میں شدت پیدا کر دی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے پیر کے دن اس انسانی المیے کو روکنے کی غرض سے اپنی کوششوں اور مشاورت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو، ملائیشیا کے وزیر خارجہ عنیفہ امان اور انڈونیشیا  کی وزیر خارجہ رتنو مرسودی کو ٹیلی فون کر کے روہنگیا مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے تشدد کو رکوانے کے لئے اسلامی ممالک کی جانب سے عملی طور اقدامات انجام دیئے جانے کا مطالبہ کیا۔

محمد جواد ظریف نے بین الاقوامی اداروں اور اسلامی ممالک کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں مدد فراہم کرنے پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کی آمادگی کا بھی اظہار کیا۔

پچیس اگست سے اب تک فوج اور انتہا پسند بڈھسٹوں کے حملوں میں سیکڑوں روہنگیا مسلمان جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن { The International Organization for Migration (IOM)} نے کہا ہے کہ حالیہ پانچ برسوں کے دوران بدترین تشدد کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا مسلمان میانمار کی سرحد کو عبور کر کے بنگلہ دیش میں داخل ہوچکے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش کے سرحدی محافظین ان کو آگے جانے سے روک رہے ہیں جس کی وجہ سے ان میں سے ایک بڑی تعداد سرحدی علاقے میں مشکلات سے دوچار ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب ان کے پاس بھاگنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے اور اگر وہ واپس میانمار لوٹتے ہیں تو ان کو اجتماعی طور پر قتل کر دیا جائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے حالیہ پیغام میں ، کہ جو مشرکین سے بیزاری کے پروگرام میں پڑھ کر سنایا گیا، اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ آج اسلامی دنیا کو بدامنی کا سامنا ہے فرمایا تھاکہ میانمار  کے مظلوموں جیسی ظلم کا شکار مسلم اقلیتوں کا دفاع ضروری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس سے قبل بھی اکتیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکا سے ملاقات میں مشرقی ایشیا میں واقع میانمار سے لے کر مغربی افریقہ میں واقع نائیجیریا تک میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر کئے جانے والے حملوں کو سامراجیوں کی تفرقہ پھیلانے والی سازشوں کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال اقوام متحدہ کے منشور اور انسانی حقوق سے متعلق دستاویزات کے مطابق نہیں ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیت قرار دیا ہے لیکن ان کے قتل عام اور ان کو بےگھر کئے جانے کی روک تھام کی غرض سے میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالا جانا ضروری ہے اور میانمارکی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان کی انجام دہی میں اسلامی ممالک کو پیش پیش ہونا چاہئے۔

ٹیگس