Sep ۰۶, ۲۰۱۷ ۱۷:۵۴ Asia/Tehran
  • روہنگیا مسلمانوں کو ایک دور افتادہ جزیرے میں منتقل کرنے کی بنگلادیش کی کوشش

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف خونریز تشدد اور ہزاروں افراد کے بے گھر کئے جانے کے بعد بنگلادیش کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ خلیج بنگال میں اس ملک کے ایک جزیرے کو روہنگیائی مسلمانوں کے لئے عارضی رہائشگاہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے-

بنگلا دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے سیاسی مشیر ایچ ٹی امام کے بقول، حکومت میانمار کے ظلم وستم کی بناء پرروہنگیا مسلمانوں کو بنگلادیش میں داخل ہونے سے روکا نہیں جا سکتاہے اور ڈھاکہ کے حکام نے عالمی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ تھینگر چار Thengar Char جزیرے میں ان پناہ گزینوں کی عارضی رہائش کے لئے امکان فراہم کرے- اس سے قبل بھی بنگلادیش کی حکومت نے روہنگیا کے پناہ گزیں مسلمانوں کو دورافتادہ جزیرے تھینگر چار میں رہائش دیئے جانے کی خبر دی تھی- 

بنگلہ دیش نے ہمسایہ ملک میانمار سے آنے والے ہزاروں روہنگیا مسلمان مہاجرین کو ایک ایسے ویران جزیرے پر آباد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو انسانوں کے رہنے کے لیے مناسب نہیں اور جہاں ہمیشہ سیلاب کا خطرہ رہتا ہے۔

اسی سبب سے ڈھاکہ حکومت کی اس درخواست پر علاقائی اور بین الاقوامی حلقوں نے سخت ردعمل ظاہر کیاہے- بنگلادیش کی حکومت بھی روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک سے باہر نکالنے اور ان پر دباؤ میں اضافہ کرنے کے ذریعے بین الاقوامی اداروں پر تھینگر چار جزیرے میں روہنگیا مسلمانوں کی رہائش میں مدد دینے کے لئے دباؤ ڈال رہی ہے-

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ یانگ لی نے کہا ہے کہ میانمار کے حکام صوبہ راخین میں مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں۔

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ یانگ لی کا کہنا تھا کہ صوبہ راخین کے مسلمانوں کو انتہائی ابتر صورتحال کا سامنا ہے اور اس بار ہونے والی تباہی اکتوبر کے واقعات سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ انہوں نے حکومت میانمار کی مشیر اعلی اور وزیر خارجہ آن سانگ سوچی پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ آنگ سان سوچی اپنی خاموشی توڑ کر اس معاملے کے حل کے لیے قدم اٹھائیں۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ میانمار سے بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور گذشتہ دو ہفتوں میں سوا لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں-

 تمام تر انتباہ کے باوجود ڈھاکا حکومت، روہنگیا مسلمانوں کو اس دور دراز جزیرے پر بسانے کے متنازع فیصلے کو عملی شکل دینے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ حکومت بنگلادیش نے اس سلسلے میں ساحلی اضلاع کے حکام پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے، ساتھ ساتھ سرکاری اہلکاروں کو احکام جاری کیے گئے ہیں کہ وہ میانمار کے غیر رجسٹر شدہ شہریوں کی شناخت اور انہیں خلیج بنگال کے تھینگر چار نامی جزیرے میں آباد کرنے میں مدد دیں۔ 

پارس ٹوڈے کے حوالے سے بنگلادیش میں انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کی سربراہ سنجا کاتا سہانی کہتی ہیں روہنگیا کے مسلمانوں کو انسانی المیے کا سامنا ہے ، عالمی برادری ان کے حالات پر توجہ کرے اور میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی بند کرے روہنگیا مسلمان جو بنگلادیش میں داخل ہوئے ہیں وہ بدترین حالات میں زندگی گذار رہے ہیں- اس لئے بین الاقوامی حلقوں اور مسلم برادری کے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ بنگلادیش کی حکومت روہنگیا کے مسلمان پناہ گزینوں کے لئے مزید بدتر حالات وجود میں لائے- اگرچہ بنگلادیش کی حکومت کا دعوی ہے کہ اس ملک میں روہنگیائی مسلمانوں کی موجودگی کے سبب اقتصادی ، سماجی اور سیکورٹی مسائل پیدا ہورہے ہیں لیکن اس کی راہ حل یہ نہیں ہے کہ انہیں ایک اجڑے ہوئے دور افتادہ جزیرے میں بھیج دیا جائے کہ جہاں پربین الاقوامی اداروں کے مطابق انسانوں کے رہنے کے لئے بالکل مناسب جگہ نہیں ہے- 

برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے بھی لکھا ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تشدد اور قتل و غارتگری کا بازار گرم ہونے کے سبب بنگلادیش کی طرف فرار کر رہی ہے گرچہ وہ جانتے ہیں کہ اس سفر کا اختتام بھی نامعلوم ہے- 

بہرحال ایک مسلمان ملک کے طور پر بنگلادیش کو روہنگیائی مسلمانوں کی رہائش کے لئے ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے کہ مغربی حلقے، مسلمانوں کی مدد و حمایت اور اسلامی یکجہتی پر انگلی اٹھائیں اور یہ ظاہر کریں کہ صرف مغربی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ہی روہنگیا مسلمانوں کے حالات پر رحم کھا سکتی اور ان کی مدد کرسکتی ہیں- اگرچہ انہوں نے بھی روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کے مقابلے میں چپ سادھ رکھی ہے - روہنگیا کے مسلمانوں کو میانمار کا شہری ثابت کرنے کے لئے اس ملک کی حکومت پر دباؤ ڈالا جانا ہی ، میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں کے خونریز تشدد کے خاتمے کے لئے بنیادی راہ حل قرار پاسکتا ہے-

ٹیگس