اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ کی ایران مخالف زہر افشانی
اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی، ایک بار پھر مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یہ ظاہر کرنے میں کوشاں ہیں کہ یہ بین الاقوامی معاہدہ، کمزور اور ساتھ ہی ناقص ہے تاکہ ایٹمی معاہدے کے خلاف واشنگٹن کی سیاسی چال بازیوں کے لئے راستہ ہموار کریں-
اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی نے منگل کو امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ میں ، عالمی برادری اور آئی اے ای اے کی رپورٹ کے بالکل برخلاف موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان ، ایک ناقص اور محدود سمجھوتہ ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے- نیکی ہیلی کے اس موقف کے برخلاف واشنگٹن میں فرانس کے سفیر جیرارڈ اروڈ Gérard Araud نے اپنے ٹوئیٹر میں لکھا ہے کہ ایران کے ساتھ سمجھوتہ، صرف ایٹمی مسئلے کے بارے میں تھا، نہ کسی اور چیز کے بارے میں، اور ایران نے دوطرفہ سمجھوتے کے دائرے میں اب تک اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے- واشنگٹن میں فرانس کے سفیر کے اس موقف نے یہ ثابت کردیا ہےکہ عالمی برادری ، ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے ایٹمی معاہدے کے خلاف انجام پانے والے اقدامات کی مخالف ہے- اس کے علاوہ فرانس اور برطانیہ نے بھی حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ لندن ایٹمی معاہدے کی پابندی کرے گا اور کوشش کرے گا کہ دیگر فریق بھی ایران کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی سمجھوتے کے پابند رہیں-
مشترکہ جامع ایکشن پلان کی مخالف ٹرمپ حکومت کے مقابلے میں، یورپی ملکوں کے موقف کے ساتھ ہی، جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے بھی گذشتہ ہفتے جمعرات کو ایٹمی معاہدے کے بعد اپنی آٹھویں رپورٹ میں ایک بار پھر اس امر پر تاکید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی سمجھوتے کی پابندی کی ہے- یہ رپورٹ یوکیا آمانو کے ساتھ نیکی ہیلی کی ملاقات کے چند روز بعد شائع ہوئی- ٹرمپ کی نمائندہ کی پوری کوشش یہ تھی کہ وہ آئی اے ای اے کے ڈائرکٹر جنرل کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ ایران میں ایٹمی تنصیبات کے معائنوں کا دائرہ، ایٹمی معاہدے میں ذکر شدہ حدود سے، زیادہ وسیع کرے- آمانو کی رپورٹ کی آٹھویں رپورٹ نے یہ ثابت کردیا کہ یہ امریکی نہیں ہیں جو معائنوں کی حد اور حدود کا تعین کرنے والے ہیں- ایٹمی معاہدہ ، دوطرفہ اقدامات اور آئی اے ای اے کے معائنوں کی بنیاد ہے-ایٹمی معاہدے پر ایران کے پابند ہونے سے متعلق آمانو کی تازہ ترین رپورٹ کے باوجود، امریکی حکومت میں موجود، اس سمجھوتے کے کٹر مخالفین دنیا والوں کو ہرممکن طریقے سے ایٹمی معاہدے کو کمزور اور محدود بتانے میں کوشاں ہیں-
موجودہ حالات میں ٹرمپ کہ جو کمزور پوزیشن کے ساتھ برسراقتدار آئے ہیں اگر وہ چاہیں کہ سلامتی کونسل کے دائرۂ کار سے باہر نکل کر ایٹمی معاہدے کے بارے میں کوئی اقدام کریں تو انہیں سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑجائے گا- کیوں کہ ایٹمی معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اور امریکہ ، ایٹمی مسئلے میں مذاکرات کا صرف ایک فریق ہے کہ جو بعض تحفظات کی بنیاد پر ایران اور یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آیا - ان تحفظات میں سے ایک ، ایران کے خلاف پابندیوں کا بے نتیجہ ہونا اور ایران کے خلاف پابندی جاری رکھنے میں، یورپی یونین اور دیگر ملکوں کا امریکہ کا ساتھ نہ دینا تھا- ایک اور نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کے پاس ایران کے ایٹمی پروگرام کے پرامن نہ ہونے کے حوالے سے، کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور اس حقیقت کی امریکہ کے سولہ انٹلی جنس اداروں نے تصدیق بھی کی ہے-
امریکہ کا ایک سناریو ٹرمپ کے دور حکومت میں یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے کے ضمن میں ، بے بنیاد دعووں اور الزامات کے ذریعے ایران پر دباؤ بڑھائے- امریکیوں کی ذہنیت یہ ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے کی براہ راست خلاف ورزی کئے بغیر اس سے عبور کرسکتے ہیں- صرف ماضی سے جو فرق ہے یہ ہے کہ امریکہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اپنے خلاف تنقیدوں میں کمی لانے ، اور ایٹمی معاہدے کے دائرۂ کار سے باہر، ایران پر دباؤ ڈالنے میں کوشاں ہے لیکن اسے اس مسئلے میں بین الاقوامی اتحادیوں کی حمایت کی ضرورت ہے-
امریکی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ ہر تین مہینے میں ایک بار ایٹمی معاہدے کے بارے میں کانگریس کو رپورٹ پیش کرے اور ایران کے ایٹمی سمجھوتے پر پابند ہونے کی تصدیق یا اس کی تردید کرے- امریکی حکومت نے اب تک دومرتبہ ایٹمی معاہدے پر ایران کے پابند ہونے کی تائید کی ہے - اکتوبر 2017 میں بھی امریکی وزارت خارجہ، کانگریس کو اپنی تیسری رپورٹ پیش کرے گی- آئی اے ای اے کی مختلف رپورٹوں کے ساتھ ہی امریکہ کی ماضی کی دو رپورٹوں کے حقائق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایران نے ہمیشہ اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے اور یہ امریکہ ہے کہ جس نے جنوری 2016 سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے وقت سے ہی اس کی خلاف ورزی شروع کر رکھی ہے-