نائن الیون کے واقعات میں سعودی عرب کا کردار
امریکی جریدے نیویارک پوسٹ نے گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات میں امریکہ میں سعودی عرب کے سفارت خانے کے ملوث ہونے سے متعلق نئی دستاویزات ملنے کی خبر دی ہے۔
نیویارک پوسٹ نے گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات کو سولہ سال مکمل ہونے کے موقع پر لکھا ہے کہ نئی دستاویزات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ میں سعودی عرب کے سفارت خانے نے ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرنے کے آپریشن کی سیمولیشن (Simulation) کی مالی حمایت کی تھی۔ اس سیمولیشن کو اس سفارت خانے کے دو افراد نے گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات سے دو سال قبل انجام دیا تھا۔ سعودی سفارت خانے کے دو ملازمین نے یہ کام اسٹوڈنٹس کے بھیس میں انجام دیا تھا۔ گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات میں سعودی عرب کے کردار کے بارے میں نئی دستاویزات ایسی حالت میں منظر عام پر آئی ہیں کہ جب گیارہ سمتبر کے واقعات میں ملوث زیادہ تر دہشت گردوں کا تعلق سعودی عرب سے ہی تھا۔ اس سے قبل بھی ان واقعات میں سعودی عرب کے براہ راست ملوث ہونے کےبارے میں مختلف رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جاری ہونے والی رپورٹ سے ان اٹھائیس صفحات کو نکال دیا گیا تھا جن میں ان واقعات میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کا ذکر تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن ان حملوں میں سعودی عرب کے کردار پر پردہ ڈالنے کے درپے ہے۔ کہا جاتا ہےکہ اس اقدام میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا بھی ہاتھ ہے۔ امریکی حکام مکاری پر مبنی اپنی سفارتکاری کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بین الاقوامی اور علاقائی امن و سلامتی کی برقراری میں سعودی عرب کے کردار کو سراہتے ہیں۔ امریکی حکام کے اس اقدام کا مقصد اس دہشت گردی کے دوسرے بانی اور حامی کے طور پر سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعاون سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانا ہے جو نئے اور پیچیدہ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ لیکن گیارہ ستمبر کے واقعات میں سعودی عرب کے ملوث ہونے سے متعلق مزید معتبر دستاویزات کے منظر عام پر آنے اور ریاض کے اقدامات سے سی آئی اے کے آگاہ ہونے سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ ان دہشت گردانہ واقعات میں سعودی عرب کے کردار پر پردہ ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔
ملک کے اندر اور ملک سے باہر سعودی عرب کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث اکثر عناصر سعودی عرب کے ہی شہری ہیں یا وہ وہابی نظریات سے متاثر ہیں اور ان کو آل سعود کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت حاصل ہے۔ سبھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بہت سے دہشت گردانہ واقعات میں سعودی عرب ہی ملوث ہے۔ دوسرے مختلف ممالک کو دہشت گردی میں مبتلا کرنے میں بھی اس ملک کا ہاتھ ہے۔ اور سب کو معلوم ہے کہ شام، عراق اور یمن کو سعودی عرب نے ہی دہشت گردی کا شکار بنایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دہشت گردانہ اقدام میں سعودی عرب کا ہی سراغ ملتا ہے۔ دہشت گردی کی مختلف صورتوں کی فکری اور نظریاتی حمایت کے علاوہ سعودی عرب خطے اور دنیا بھر میں انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔
جیساکہ اب بھی سعودی عرب کے حمایت یافتہ داعش اور القاعدہ دہشت گرد گروہوں سے وابستہ انصارالشریعہ، بوکوحرام اور الشباب جیسے دہشت گرد گروہ افریقہ، ایشیا حتی یورپ اور امریکہ میں سرگرم ہیں جو کہ عالمی امن کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے میں سعودی عرب کا کردار اور ان منحرف اور دہشت گرد گروہوں کی نظریاتی امداد ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف ان مغربی حلقوں کو بھی ہے جن کی حکومتیں بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کی بانی اور حامی شمار ہوتی ہیں۔ سعودی عرب کے سازشی اقدامات اور اس سلسلے میں امریکہ کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ دہشت گردی کے پھیلاؤ ، عالمی امن و سلامتی کے خطرے میں پڑنے اور گیارہ ستمبر جیسے واقعات رونما ہونے کا باعث بنا ہے۔