خطے کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں ایران اور ترکی کے صدور کی مشاورت
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے قزاقستان کے دار الحکومت آستانہ میں اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔
صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور ترک صدر رجب طیب ادوغان نے روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال کو انتہائی افسوسناک اور غم انگیز قرار دیتے ہوئے، اسلامی دنیا کے درمیان موثر سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر حسن روحانی نے اس موقع پر کہا کہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو بہت بڑے المیے کا سامنا ہے جسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے صدر نے اسلامی ملکوں کے سربراہوں پر زور دیا کہ وہ متاثرہ روہنگیا مسلمانوں اور پناہ گزینوں کے معاملات کو فوری طور پر حل کرنے کے لئے مل کوشش کریں۔ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ اسلامی جہموریہ ایران کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے لیے امدادی سامان روانگی کے لیے تیار ہے اور ہم مزید امدادی کھپیں تیار کر رہے ہیں۔صدر ایران نے کہا کہ اسلامی ممالک اور خاص طور سے ایران اور ترکی کے درمیان تعاون روہنگیا مسلمانوں کے مصائب و آلام کو کم کرنے میں انتہائی موثر واقع ہوسکتا ہے۔صدر حسن روحانی نے کہا کہ اسلامی ممالک کے آستانہ اجلاس سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کرنے والوں کو ٹھوس اور واضح پیغام دیا جانا چاہیے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اس موقع پر امید ظاہر کی کہ آستانہ سربراہی اجلاس میں میانمار کے حوالے سے واضح بیان جاری کیا جائے گا اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی مشترکہ کوششیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے میانمار کے حکمرانوں کو شفاف پیغام دینے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں سائنس و ٹیکنالوجی کے موضوع پر جاری ہے لیکن خطے اور اسلامی دنیا کے موجودہ اہم مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آستانہ میں اسلامی سربراہی اجلاس ایسی حالت میں بلایا جا رہا ہے کہ جب خطہ اور اسلامی دنیا بہت ہی حساس دور سے گزر رہی ہے۔ دہشت گردی اور داعش کا مقابلہ اور خطے میں توسیع پسندانہ اقدامات کے مقابلے کے لئے علاقائی ممالک کی جانب سے ایک جیسا موقف اختیار کئے جانے کا شمار ایسے امور میں ہوتا ہے جن کے بارے میں غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ ایک جانب اسلامی ممالک کے لئے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ میانمار میں مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں موثر اقدام انجام دیں۔ پچیس اگست سے اب تک مغربی میانمار میں واقع صوبۂ راخین میں مسلمانوں پر فوج کے حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ جس میں چھ ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان مارے جا چکے ہیں جبکہ آٹھ ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ میانمار میں پیش آنے والے واقعات اتفاقیہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
عالمی اسلامی بیداری کونسل کے سیکرٹری علی اکبر ولایتی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بچوں کی قاتل اور ظالم صیہونی حکومت کی جانب سے اپنا دامن صاف ظاہر کرنے اور میانمار کی حکومت کی ہم آہنگی کے ساتھ بے گناہ انسانوں ، بوڑھوں اور بچوں پر ظلم و ستم کے کلچر کو فروغ دینے کی کوشش سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو منظم مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کے ہولناک واقعات کی بنا پر یقینا عالمی اداروں منجملہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم کی بھاری ذمےداری عائد ہوتی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹریش کے نام ایک خط میں میانمار کے مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کا سلسلہ جاری رہنے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ عالمی برادری خصوصا اقوام متحدہ کو فوری طور پر اس سلسلے میں اقدام کرنا چاہئے۔ بلاشبہ مسلمانوں کے دفاع کے سلسلے میں اسلامی ممالک کا کردار زیادہ نمایاں ہونا چاہئے اور ان کو میانمار کے مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے غیر انسانی ظلم و ستم کے خلاف ایک جیسا موقف اختیار کرنا چاہئے۔